News

اسرائیل نے ابھی ایران کے نمبر ون سرکاری ٹی وی چینل پر براہِ راست نشریات کے دوران بمباری کی ہے۔ جی ہاں، وہ شہید ہو چکے ہیں۔ یہ سب لائیو ہوا، اور کئی صحافیوں پر حملہ کیا گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا — ایک ٹی وی اسٹیشن کو پوری دنیا کے سامنے، لائیو نشریات کے دوران بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ اب ہر کوئی صہیونیت کا اصل چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ ذرا ایک لمحہ رک کر سوچیں — کیا امریکا کبھی یہ برداشت کرے گا کہ فاکس نیوز کے ہیڈکوارٹر پر لائیو نشریات کے دوران کسی غیر ملکی طاقت کی جانب سے بمباری ہو؟ کیا برطانیہ کبھی یہ گوارا کرے گا کہ بی بی سی پر لائیو نشریات کے دوران غیر ملکی حملہ ہو؟ تو ایران بھی مختلف نہیں ہے۔ وہ ایک خودمختار، آزاد ملک ہے، اور وہ بھی یہ سب برداشت نہیں کرے گا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب حقیقت میں ہو رہا ہے۔ شہداء کو سلام ہو! اور مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ زینب (اینکر) اس وقت دنیا کی سب سے بہادر عورت ہیں۔ وہ دوبارہ نشریات پر واپس آ چکی ہیں اور ایک بار پھر رپورٹنگ کر رہی ہیں۔ اگر آپ عمارت کے باہر کی تصاویر دیکھیں، تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہیڈکوارٹر کے کئی حصے آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ کوئی بہت ب

واحد ملک جو ایران کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے، وہ پاکستان ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم سے لے کر وزیرِ دفاع تک، پارلیمنٹ اور سینیٹ میں ایران کی مکمل حمایت کی گئی، اور بین الاقوامی محافل میں بھی پاکستان نے ایران کا ساتھ دیا۔ اسی طرح پاکستانی عوام نے بھی سڑکوں پر نکل کر ایران اور ایرانی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ البتہ، ان خبروں کے درمیان کچھ ایسی خبریں بھی منظرِ عام پر آئیں جو پاکستان کی طرف سے تصدیق شدہ نہیں تھیں۔ ان میں ایک خبر پاکستان کی طرف سے ایران کو میزائل فراہم کرنے کی تھی، جس کی تردید کر دی گئی۔ گزشتہ رات یہ بات بھی کہی گئی کہ اگر اسرائیل نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیے تو پاکستان ایران کا ساتھ دیتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کرے گا— یہ خبر بھی مسترد کر دی گئی۔ البتہ پاکستان کے وزیر دفاع نے یہ واضح کیا کہ ایران نے تاحال ہم سے کسی قسم کی مدد کی درخواست نہیں کی، لیکن اگر وہ مدد مانگیں گے تو ہم ضرور تعاون کریں گے اور ان کی مدد کریں گے۔ مجموعی طور پر، پاکستان کی حکومت اور عوام ایران کی حمایت کر رہے ہیں، اور ہم دعا گو ہیں کہ یہ معاملہ جلد از جلد بخیر و خوبی ختم ہو، اور ایران اس جنگ میں کامیاب و سربلند ہو کر

احسان اشراقی،ایک شخص تھا، بالکل عام لوگوں جیسا۔ ایک سادہ سا باپ، بینک میں کام کرنے والا، جو روز صبح ناشتہ میں سادہ روٹی کھا کر اور اپنی بیٹی کی پیشانی پر بوسہ دے کر کام پر روانہ ہوتا تھا۔ صہیونی حکومت کے وحشیانہ اور بے رحم حملے میں، جو تہران کے رہائشی علاقوں پر کیا گیا، ایک میزائل عین ان کے گھر کے بیچ گرا۔ احسان اور اس کی بیٹی کے پاس نہ ایٹم بم تھا، نہ انہوں نے کسی کو ذلیل کیا تھا۔ وہ تو بس ایک باپ اور بیٹی تھے، جن کا واحد "جرم" یہ تھا کہ وہ زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن ان کا سانس لینا بھی اُس حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت تھا، جو بچوں سے ڈرتی ہے، اور جس کے نزدیک بچوں کا قتل ایک تفریح ہے۔ اب ان دونوں کی قبریں ایک ساتھ ہیں۔ بیٹی کی قبر پر لکھا ہے: "نو سالہ بچی" — جو قربان ہو گئی، بغیر یہ جانے کہ کیوں۔