News

اور دنیا کو کب پرواہ ہوگی؟ کتنے اور بچے بھوکے سونا سیکھیں گے؟ کتنی ماؤں کو اپنے لختِ جگر کی لاشیں سینے سے لگانی ہوں گی؟ کتنے اور لوگ پیٹ پر پتھر باندھ کر زندہ رہنے کی جنگ لڑیں گے؟ کیا انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں رہی؟ کیا غزہ کے بچوں کا خون، تمہاری خبروں میں صرف ایک عدد بن کر رہ گیا ہے؟ کیا صرف وہی زندگیاں اہم ہیں جو خاموشی سے مر جاتی ہیں؟ یہ سوال صرف فلسطینیوں کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ اگر تم آج خاموش ہو، تو کل تمہاری آواز بھی کوئی نہیں سنے گا۔ اب خاموشی جرم ہے۔ بولنا ضروری ہے

آج کی دنیا ایک تہذیبی تصادم کا سامنا کر رہی ہے — ایک طرف ایران کو خطرہ قرار دیا جاتا ہے، اور دوسری طرف وہ آزاد دنیا جو خود جنگ و تباہی کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کی بنیاد اسرائیلی وزیراعظم نتنیاہو نے رکھی، جو غزہ میں قتل عام اور نسل کشی سے توجہ ہٹانے کے لیے ایران کو اکسا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 41,000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 15,000 بچے اور 10,000 خواتین شامل ہیں۔ اسرائیل بیک وقت نسل کشی، نسلی تطہیر، اور اجتماعی سزا جیسے جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، جبکہ شمالی غزہ میں 7 لاکھ افراد، جن میں 3.5 لاکھ بچے شامل ہیں، قحط کا شکار ہیں۔ یہ ظلم آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر چھپایا جا رہا ہے، جبکہ اصل دہشت گردی قبضہ، قتلِ عام اور نسل کشی ہے۔