خواجہ عبداللہ انصاری

خواجہ عبداللہ انصاری

خواجہ عبداللہ انصاری

خدایا، جس نے تجھے پہچانا اور تیری محبت کا پرچم بلند کیا، اس نے تیرے سوا جو کچھ تھا اسے پھینک دیا۔ وہ جس شخص نے تجھے پہچان لیا وہ اپنی زندگی کو کیا کرے گا۔ وہ اپنے بچوں، خاندان اور بیویوں کوکیا کرے گا۔ اگر تم اسے اپنا دیوانہ بنا لواور پھر دو جہان بھی دے دو، تو تمہارا دیوانہ ان دو جہانوں کو کیا کرے گا؟ یہ عبارت "شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ بن ابی منصور محمد" کی دعائیہ کتاب کا حصہ ہے جو پیر ہرات، پیر انصار، خواجہ عبداللہ انصاری اور انصاری ہروی کے نام سے مشہور ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے عظیم علماء اور صوفیاء میں سے ایک ہیں۔ آپ کی ولادت 1005ء (384ھ) میں ہرات کے مضافات میں "کہن دژ" کے مقام پر ہوئی۔ چار سال کی عمر میں آپ نے سکول میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا اور نو سال کی عمر میں آپ نے اپنی فصیح اور عمدہ زبان و ہنر کی وجہ سے فارسی اور عربی اشعار کہنے شروع کیے۔ خواجہ عبداللہ انصاری نے "یحیی ابن عمار" اور "طاقی سجستانی" جیسے اساتذہ سے قرآن کریم و احادیث کی تعلیم حاصل کی اور پھر کچھ عرصہ بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور گئے، جہاں سے طوس اور بسطام کا سفر کیا اور اپنے آپ کو احادیث کی جمع آوری کیلئے وقف کر دیا۔ شیخ ابوالحسن خرقانی جیسی ایک متقی اور عارف شخصیت سے ملاقات نے انہیں تصوف کی راہ پر قدم جمانے پر مجبور کیا اور اس کے بعد آپ نے ہمیشہ باقی رہنے والی کئی متاثر کن اور خوشگوار علمی آثار پر تصنیف کیں۔

"مناجات‌نامہ"

خواجہ عبداللہ انصاری نے یوں تو تصوف کی تعلیم بہت سے اساتذہ سے حاصل کی، لیکن وہ سب سے زیادہ شیخ ابوالحسن خرقانی سے متاثر ہوئے اور انہی سے تعلیم حاصل کی۔ جیسا کہ آپ نے خود کہا: "اگر میں نے خرقانی کو نہ دیکھا ہوتا، تو میں حقیقت کو نہ جان پاتا، اور میں ہمیشہ اس کو اسکے کے ساتھ ملاتا، یعنی ذات کو حقیقت کے ساتھ ملاتا"۔ خرقانی سے خواجہ کی پہلی ملاقات 1032ء (424ھ) میں اس وقت ہوئی جب وہ حج سے واپس آرہے تھے۔ خرقانی سے آپ کی ملاقاتوں کا آپ کے مزاج اور کردار پر بہت گہرا اثر ہوا۔ خرقانی کے علاوہ خواجہ عبداللہ ابو سعید ابو الخیر سے ملنے بھی جاتے۔ آپ فقہ میں احمد بن حنبل کے پیرو تھے۔ خواجہ عبداللہ کا انسانی معرفت اور دنیا کی معرفت کا نظریہ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہی سرچشمہ لیتا ہے۔ خواجہ عبداللہ انصاری کا "مناجات نامہ"، فارسی زبان کا ایک عارفانہ اور ادبی مقالہ ہے، جو خواجہ عبداللہ انصاری کی دعاؤں اور مناجات اور عارفانہ کلام کا ایک حصہ ہے اور اپنے دلکش اور فصیح و بلیغ نثری قافیہ اور خوبصورتی کی وجہ سے شاعری کی ایک قسم کے طور پر مشہور ہے۔ ہر دعا اور مناجات خداوند سے ہی شروع ہوتی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی حکمت عارف کی روح میں ظاہر ہوئی ہے۔ شیخ انصاری کی دعاؤں اور مناجات کا ماخذ قرآن کریم و احادیث ہے جس میں آپ سے پہلے کے تمام اہل تقویٰ و عرفان کا کلام ہے اور یہ آنے والی نسلوں کے لیے بطور نمونہ ہے۔ خواجہ عبداللہ انصاری کی تصانیف میں سےعظیم علمائے تصوف کے حالات اور اقوال کے بارے میں "طبقات صوفیاء"جو فارسی ہروی زبان میں ہے، "تفسیر قرآن" جو کہ تصنیف میں ابوالفضل میبدی کی تصنیف "کشف الاسرار"کی بنیاد پر ہے، اور"انوار التحقیق"، "رحل الرسول"، "رسالہ اربعین"، "مناجات نامہ" یا "الہی نامہ"، "نصائح"، "زادالعارفین"، "کنزالسالکین" "قلندر نامہ"، "محبت نامہ"، "ہفت حصار"، "واردات" اور "ذم الکلام" قابل ذکر ہیں۔ اس عظیم شاعر کے علمی آثار ہر شخص کو ابدی خوشی، خود شناسی اور خدا شناسی کے حصول کی دلچسپ دنیا دکھاتے ہیں۔ اس عظیم عالم نے بڑی محنت سے فارسی طرز بیان کیلئے ایک نیا اسلوب تخلیق کیا ہے جو فارسی نثر اور نظم کے امتزاج کا بہترین شاہکار ہے۔

طرز تحریر

خواجہ عبداللہ انصاری کا طرز تحریر صوفی مقررین اور ماہرین کے طرز تحریر سے ملتا جلتا ہے اور اس کی مثالیں ہمیں ابو سعید ابوالخیر کے کلام میں ملتی ہیں۔ اس اسلوب کو اصل شعری وزن اور مصنوعی نثری وزن کے درمیان ایک طریقہ کہا جا سکتا ہے، جس میں بولنے والے کے نثری کلام میں ایک قسم کا شعری وزن اور شاعری کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ یہ اس شخص کے نثری کلام کو اشعار کی طرز پر ہم وزن بنادیتا ہے۔ خواجہ عبداللہ انصاری غزنویوں اور سلجوقیوں کے دور میں رہے اور اس زمانے میں بعض علماء اور مصنفین نے اس متقی شاعر کے اسلوب کی مخالفت کی اور اس کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا، جس کی وجہ سے اس عظیم عالم اور محدث کو ایک سال کیلئے قید کر دیا گیا اور آزادی کے بعد بھی زندگی بھر اپنی رائے پر ثابت قدم رہے۔ خواجہ عبداللہ انصاری کے کلام میں تدبر کی بنیاد پر بنیادی تعلیمی باتوں، جیسے انسانی جسم اور روح کا امتزاج، انسانوں کی خود مختاری، انسانوں کے درمیان انفرادی اختلافات کا وجود، انسان ہی تخلیق کے نظام کا مقصد اور خاتمہ ہے، منتخب شدہ اور بہترین انسان، انسان کی امانتداری ، زمین پر خلافت الٰہی، نیکی اور خیر کی جانب مائل ہونے کی صلاحیت وغیرہ کے بارے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خواجہ عبداللہ انصاری کی وفات 1088ء (481ھ) میں 85 سال کی عمر میں ہرات میں ہوئی اور ہرات میں گذر گاہ کے مقام پر دفن ہوئے۔

نام خواجہ عبداللہ انصاری
ملک ایران
عرفیتآپ پیرہرات، پیر انصار، خواجہ عبداللہ انصاری اور انصاری ہروی کے ناموں سے مشہور ہیں۔
تصنیف کا سالگیارہویں صدی عیسوی
کشف‌الاسرار انوار التحقیق مناجات‌نامہ الٰہی‌نامہ نصائح زادالعارفین قلندرنامہ محبت‌نامہ ہفت حصار

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: