ابن بواب

ابن بواب

ابن بواب

علاءالدین ابو الحسن علی بن ہلال جسے "ابن بواب" کہا جاتا ہے، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری (10ویں اور 11ویں صدی عیسوی) کے مشہور خطاط اور سونے کا کام کرنے والےتھے۔ آپ کی پیدائش کے مقام اور وقت کے بارے میں کوئی صحیح معلومات نہیں ہیں۔ صرف ایک چیز جو یقینی ہے وہ ان کی بغداد میں رہائش ہے، جہاں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزرا۔ آپ کے والد ہلال آل بوایہ کے دربان تھے اور اسی وجہ سے آپ کو علاءالدین ابوالحسن علی بن ہلال، ابن بواب کہا جاتا ہے۔

خط منسوب

خطاطی(کیلی گرافی) شروع کرنے سے پہلے ابن بواب بڑی بڑی شخصیات کے گھروں کی پینٹنگ میں مصروف تھے، اس کے بعد آپ نے سونے کا کام (Gold work/ illumination/ ɡɪlt) اور کتابوں پر سونے کے  کام (Gold-Calligraphy) کو شروع کیا۔ آپ نے ادبی علوم بھی پڑھے اور آپ کے استاد ابن جنی تھے۔ ابوالحسین محمد بن سمعون واعظ اور ابو عبید اللہ مرزبانی کا بھی آپ کے ادب کے اساتذہ میں شمار ہوتا ہے۔ آپ آہستہ آہستہ خطاطی کی طرف متوجہ ہوئے اور کتابت شروع کی۔ آپ نے کتابت (خطاطی/کیلی گرافی) ابن مقلہ کے شاگرد محمد بن اسد اور محمد بن سمسانی سے سیکھی۔ یہ دونوں اساتذہ عظیم خطاط اور خط نسخ کے تخلیق کار اور عباسی دور حکومت سے وابستہ افراد  تھے۔ ابن بواب نے اپنی فنی بصیرت سے منسوب خطاطی کو ایک خاص فنی خوبصورتی بخشی۔ ریحان اور محقق کی ابتدائی خطاطی کو بھی ابن بواب سے منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے" نرگس"، "لولوئی"، "مرصع" اور "واشی" جیسی خطاطی کو بھی بہتر اور خوبصورت بنانے میں بے حد محنت اور کوشش کی۔ ابن بواب خطاطی میں اس مقام پر پہنچے کہ وہ اپنے زمانے کی منفرد خطاط شخصیت بن گئے اور جیسا کہ تاریخی منابع میں آتا ہے کہ ان سے پہلے کے خطاطوں میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملتا جو ان جیسی کتابت کرسکے۔ عضد الدولہ دلمی کے بیٹے بہاء الدولہ نے آل بوایہ کے دور حکومت میں انہیں شیراز میں اپنی لائبریری کا لائبریرین منتخب کیا۔ ابن بواب نے خطاطی کی تعلیم کے لیے ایک تربیتی سنٹر بھی قائم کیا جو 1298ء (698ھ) تک قائم رہا۔

خط ابن بواب کی نایابی

ابن بواب کی تحریر اپنی اہمیت کی وجہ سے ساتویں صدی ہجری  قمری کے اوائل میں نایاب ہوگئی تھی۔ یہ ایسے وقت میں ہوا جب ابن بواب نے اپنے کام کے آغاز میں اس دور کے ایک بزرگ کو 70 سطری خط لکھ کر دو دینار طلب کیے تھے۔ اس تاریخی  واقعہ کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ابن بواب کے ہاتھ کی لکھائی اور ان کی خطاطی(کتابت) کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ان کا خط نایاب ہوگیا اور قدر و قیمت پہلے سے کہیں بڑ گئی۔ تاریخی ذرائع کے مطابق ابن بواب کا دو دینار کا ایک ہی خط پہلی بار 17 دینار میں اور دوسری بار 25 دینار میں فروخت ہوا۔ ابن بواب نے قرآن کریم کے 64 نسخے لکھے۔ ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن کریم کا مکمل نسخہ آئرلینڈ کی چیسٹربی لائبریری میں محفوظ ہے۔ یہ نسخہ 1001ء (391ھ)میں لکھا گیا۔ اگرچہ اس نسخے کی ہینڈ رائٹنگ کو "خط نسخ" کے طور پر نقل کیا گیا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کتابت ریحان کے خط نسخ کے ساتھ ملتی جلتی، یا دوسرے لفظوں میں خط نسخ ریحانی ہے۔ اسکے علاوہ کچھ دیگر ہنری آثار بھی ابن بواب کی طرف منسوب ہیں۔ جن میں جاہلی شاعر دیوان سلامہ بن جندل کے دو نسخے بھی شامل ہیں، جن میں سے پہلا استنبول کے ٹوپکاپی سرائے میں رکھا گیا ہے اور دوسرا ترکیہ کے ترک اور اسلام کے فن پاروں پر مبنی عجائب گھر میں رکھا گیا ہے۔ ابن بواب کا خطاطی کا طریقہ اس وقت تک استعمال ہوتا رہا، جب تک مستعصمی کا یاقوتی اسلوب مقبول نہیں ہوا، چنانچہ مستعصمی کی یاقوتی خطاطی کے استعمال نے ابن بواب کی خطاطی کی جگہ لے لی۔ خطاطی میں ابن بواب کے شاگردوں میں سے محمد بن عبدالملک قابل ذکر ہیں۔ ابن بواب کو شاعری کا بھی ہنر حاصل تھا اور ان سے کچھ اشعار بھی منسوب کیے گئے ہیں، جن میں خطاطی میں "رائی کا اوڈ" بھی شامل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے 28 بیت ہیں۔ آخر کار ابن بواب کا انتقال بغداد میں ہوا اور وہ مرقد احمد ابن حنبل کے پاس دفن ہوئے۔

نام ابن بواب
ملک ایران
عرفیتابن بواب
تصنیف کا سالچوتھی اور پانچویں صدی ہجری قمری
قرآن کریم کو ریحانی رسم الخط کے ساتھ لکھنا
Yard periodthe past

---- [مزید]

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: