شیخ صدوق

شیخ صدوق

شیخ صدوق

ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی کو اسلامی جمہوریہ ایران اور دنیا بھر کے لوگ "شیخ صدوق" کے نام سے جانتے ہیں۔آپ ایک فقیہ، محدث، مفسر اور شیعہ عالم ہیں۔ تاریخی ذرائع نے شیخ صدوق کی پیدائش  991ء (381ھ) بتائی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے شہر علم و  اجتہاد  قم میں پیدا ہوئے۔ شیخ صدوق حوزہ علمیہ قم کے اہل کلام و حدیث کے نزدیک بہت بڑے محدث اور فقیہ مانے جاتے ہیں۔

کلامی مکتبہ فکر کے فقیہ

شیخ صدوق قم میں پلے بڑھے اور اپنے والد کے ساتھ 20 سال تک اسی شہر میں ہی رہے۔ آپ کے والد کا نام ابوالحسن علی تھا اور وہ بڑے فقیہ اور محدث تھے۔ شیخ صدوق نے بنیادی دینی علوم اپنے والد سے ہی سیکھے  اور فقہ و حدیث میں وہ محمد بن حسن بن ولید، محمد بن علی مجلویہ، احمد بن علی بن ابراہیم قمی جیسےاساتذہ  کے شاگرد تھے۔ 20 سال قم میں رہنے کے بعد اہل رے کی درخواست پر وہاں گئے۔ شہر رے سے آپ نے ایران کے مختلف شہروں کا سفر شروع کیا۔ آپ پہلے مشہد گئے اور پھر بلخ، بخارا، مدینہ منورہ، کوفہ، ہمدان اور بغداد میں اپنے عہد کے بڑے بڑے علماء کے سامنے زانوے تلمذ طے کیے اور اپنے زمانے کے جید محدثین علماء اور فقہاء سے تعلیم حاصل کی اور اس وقت کے مشہور شیعہ علماء میں سے ایک ہیں۔ آج بھی ان کا نام م شیعہ مکتبہ فکر کے علماء اور بالخصوص حوزہ علمیہ قم کے جید علماء، فقہاء اور محدثین میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ صدوق نے 300 علمی آثار چھوڑے ہیں جن میں سے، سب سے اہم کتاب "من لایحضرہ الفقیہ" ہے۔ یہ کتاب شیعہ مسلک کی چار معتبر اور مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔ شیعہ اپنی ان چار کتابوں: اصول  کافی، تہذیب، استبصار اور من لایحضرالفقیہ کو حدیث کا اپنے ہاں معتبر ماخذ مانتے ہیں اور انہیں "کتب اربعہ" (چار کتابیں) کہتے ہیں۔ شیخ صدوق نے کتاب "من لایحضرہ الفقیہ" میں تقریباً 6000 احادیث جمع کی ہیں جن کا موضوع فقہی اور عملی احکام ہے۔

شیخ صدوق کے افکار و نظریات

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، شیخ صدوق حوزہ علمیہ قم کے جید علماء، فقہاء اور محدثین میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ خدا کی معرفت کے لیے انسان کو ہمیشہ الہام الٰہی یا حجت الٰہی کی ضرورت ہےاور اس بات پر زور دیا کہ وحی کی مدد کے بغیر عقل خدا کو سمجھ سکتی ہے نہ مذہبی علوم کو کشف کر سکتی ہے۔

علمی آثار

کتاب "مدینۃ العلم" شیخ صدوق کی سب سے جامع اور مکمل تصنیف ہے جو نامعلوم وجوہات کی بناء پر ضائع ہو گئی اور آج اس کتاب کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ شیخ طوسی کہتے ہیں کہ کتاب "مدینۃ العلم" میری کتاب لا یحضرہ الفقیہ سے بڑی تھی۔ ابن شہر آشوب روایت کرتے ہیں کہ من لا یحضر الفقیہ کے چار حصے ہیں۔ جبکہ "مدینہ العلم" کے دس حصے ہیں۔ 4 مئی، جو کہ ایران کے قومی کیلنڈر  کے مطابق 15 اردیبہشت شمسی ہے، اس دن کو ایران میں یوم "شیخ صدوق " کے طور پر منایا جاتا ہے۔

نام شیخ صدوق
ملک ایران
عرفیتشیخ صدوق
تصنیف کا سالتیسری صدی ہجری قمری
من لایحضره الفقیہ مدینۃ العلم الامالی عیون اخبارالرضا فضائل الشیعہ علل الشرایع صفات‌الشیعہ
Yard periodthe past

---- [مزید]

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: