علامه مجلسی

علامه مجلسی

علامه مجلسی

محمد باقر مجلسی، جنہیں علامہ مجلسی اور مجلسی دوم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1627ء (1006 ہجری) میں اصفہان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد تقی مجلسی، شیخ بہائی کے عظیم شاگردوں میں سے ایک تھے۔ علامہ مجلسی نے چار سال کی عمر سے ہی اپنے والد سے پڑھنا لکھنا شروع کیا۔آپ کی حیرت انگیز صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کو 14 سال کی عمر میں صفوی دور کے مشہور فلسفی ملا صدرا سے روایت کرنے کی اجازت مل گئی۔آپ نے ملا حسن علی ششتری، آغا حسین محقق خوانساری، ملا محمد صالح مازندرانی، شیخ حر آملی اور ملا محسن فیض کاشانی جیسے ممتاز اساتذہ سے کسب فیض کیا اور علم معقولات اور منقولات پر تسلط حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ اجتہاد کے درجے تک پہنچ گئے۔چونکہ آپ کو علم فقہ، کلام، تفسیر، حدیث، داریہ، رجال اور دیگر دینی علوم میں مہارت حاصل تھی، اس لیے آپ نے مرزا عبداللہ اصفہانی صاحب ریاض العلماء، سید نعمت اللہ جزائری، سید ابوالقاسم خوانساری اور میر ابوطالب فیندرسکی سمیت کئی طلباء کی تعلیم و تربیت کی۔

علامہ مجلسی کی عظیم کتاب "بحار الانوار"

علامہ مجلسی کو اسلامی علوم کے شعبہ جات میں سے حدیث لکھنے میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی اور وہ اکابرین کے قریب تھے۔ آپ کی سب سے مشہور کتاب "بحار الانوار" کے نام سے ایک وسیع حدیث کامجموعہ ہے جو دینی علوم کے نظام میں حدیث کے مقام کو زندہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بحار الانوار کی تقریباً 700 ہزار سطور (روایات)  ہیں اور اس کے ایک ایڈیشن کی 110 جلدیں ہیں۔ علامہ مجلسی نے اپنے زمانے کے علماء کی طرح بحار الانوار کو اس روش پر لکھنا شروع کیا کہ تمام علوم خداوند کی مشیعت کے مطابق ہیں اور ان علوم کے بارے آئمہ طاہرین (ع) کے علمی آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ کتاب بحار الانوار کی تصنیف اس دور کے علماء کی حدیث سے دلچسبی اور حدیث کی تصنیف کی طرف عمومی توجہ کا حصہ ہے۔ ایسے نصوص فراہم کرنا جو شیعوں کے سوالات کے جوابات دیں اور انہیں فلسفہ اور تصوف جیسے منحرف شعبوں اور علوم سے نمٹنے کے لیے بے نیاز قرار دیں۔ اسی وجہ سے شیعہ احادیث کے مجموعوں کو مرتب کرنے میں علامہ مجلسی کی کارکردگی کو شیعہ مذہب (اسلامی مکاتب فکر میں سے ایک مکتبہ فکر) کو تقویت دینے کے عمل کے طور پر جانچا جاتا ہے اور انہیں شیعہ مذہب کا احیاء کرنے والا کہا جاتا ہے۔

علامہ مجلسی کے دیگر علمی آثار

علامہ مجلسی نے اپنی 73 سالہ زندگی میں فارسی اور عربی میں سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ 110 جلدوں پر مشتمل "بحار الانوار" کے علاوہ، آپ کی کتابیں "مراۃ العقول"، "حلیہ المتقین" (اسلام اور اسلامی تعلیمات پر مبنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے آداب کے بارے میں اخلاقیات)، "تحفۃ الزائر" (معصومینؑ کی زیارت پر کتاب) "توحید مفضل کا ترجمہ"، "آدب الصلاۃ"، "عین الحیات" (احکامات کا ترجمہ اور تفصیل)۔ اور جناب ابو ذر غفاری کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی سفارشات، "حیات القلوب" (انبیاء و رسل کی تاریخ میں)" اور ...دیگر کتب قابل ذکر ہیں۔ علامہ مجلسی کی 49 کتابیں اور مقالے فارسی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ علمی آثار فارسی زبان میں لکھے گئے تھے جس کا مقصد عام لوگوں میں مذہبی علوم کو فروغ دینا تھا۔ علامہ مجلسی کی فارسی کتابوں کی اہمیت ان کی سادگی اور موضوعات کی وسعت میں ہے۔

علامہ مجلسی کی وفات

علامہ مجلسی کی تاریخ وفات کو بعض مصنفین نے 1699ء (1111ھ) اور بعض دیگر نے 1110ھ لکھا ہے۔ علامہ مجلسی کو جامع مسجد عتیق کے قریب آپ کے والد ملا محمد تقی مجلسی کے مرقد میں دفن کیا گیا۔ 21 اگست، جبکہ ایران کے قومی کیلنڈر کے مطابق 30 مرداد شمسی کو "علامہ مجلسی "کی یاد میں "یوم مجلسی" منایا جاتا ہے۔

نام علامه مجلسی
ملک ایران
عرفیتعلامه مجلسی، مجلسی ثانی
تصنیف کا سالگیارہویں صدی ہجری۔
بحارالانوار مرآة‌العقول حلیة المتّقین تحفة الزّائر توحید مفضّل کا ترجمہ آداب الصّلاة عین الحیات

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: