عبدالرحمان جامی

عبدالرحمان جامی

عبدالرحمان جامی

ہفت اورنگ، " نفحات الانس " اور "بہارستان" جامی کی تین مشہور تصانیف ہیں جن کے نام زیادہ تر  ایرانیوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ بلاشبہ جامی کی تصانیف صرف ان تین علمی آثار تک محدود نہیں ہیں، بلکہ  ان کی دیگر تصانیف میں " دیوان اشعار "، " لوایح"، " اشعة‌ اللمعات "، "صوفیاء کی تاریخ اور ان کے مذہب پر تحقیق"، "نقد النصوس فی شرح نقش الفصوص ابن عربی"، " مناسک‌ حج‌ منظوم "، "مناقب جلال الدین رومی" اور "منشأت" بھی قابل ذکر ہیں۔

جامی کے مشہور علمی آثار

"ہفت اورنگ" جامی کی  اہم ترین شاعرانہ تصنیفات میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں جامی نے رزمیہ، تاریخی، رومانوی اور سبق آموز کہانیاں بیان کی ہیں۔"ہفت اورنگ" میں سات حصوں" مثنوی سلسلۃا لذہب " (سلطان حسین  بایقرا کے نام سے لکھی گئی مختلف کہانیوں کے ساتھ مذہبی اور اخلاقی مسائل کے بارے میں منظومہ کتاب)، " سلامان و ابسال " (یونانی ماخذ سے ایک رومانوی اور صوفیانہ کہانی) "تحفۃ الاحرار" (خواجہ نصیر الدین نقشبندی  سے منسوب صوفیانہ اور مذہبی مثنوی)، " سبحۃالابرار " (تصوف اور اخلاقی مسائل کے بارے میں متعدد تمثیلوں کے ساتھ کتاب)، " یوسف و زلیخا " (جامی کی بہترین مثنوی جو سلطان حسین  کے نام سے منسوب ہے۔)، "لیلی و مجنون" اور " خردنامہ اسکندری "  جو حکمت اور فلسفی مسائل ، پر مبنی  ہے۔  کتاب ہفت اورنگ میں جامی نے عرفانی تصورات کو انسانوں اور حیوانی کرداروں کی زبان سے تمثیلوں اور کہانیوں کی شکل میں بیان کیا ہے۔ بہارستان یا "روضۃ الاخبار و تحفۃ الابرار" اس مقبول شاعر کی ایک اور تصنیف ہے، جو گلستان سعدی کی نقل کرتے ہوئے نثر اور نظم کی شکل میں لکھی گئی ہے۔ بہارستان میں قصے اور اخلاقی نصیحتیں سادہ اور منظوم نثر میں بیان کی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اسے جامی نے 892 ھ قمری میں اپنے بیٹے ضیاء الدین یوسف کی تعلیم و تربیت کے لیے تصنیف کی اور تیموری بادشاہ سلطان حسین بایقرا کو تحفہ دی ہے۔" نفحات‌الانس " جامی کی ایک اور مشہور کتاب ہے۔اس کتاب میں جامی نے عرفانہ و صوفیانہ حقائق کو عرفاء کے آغاز سے لیکر مصنف کی وفات تک بیان کیا ہے ۔ جامی کو تیموری دور کا سب سے بڑا اور مشہور شاعر کہا جاتا ہے۔ تیموری دور ایران کی تاریخ کے ان ادوار میں سے ایک ہے جس میں فارسی شاعری اور نظم کے میدان میں وسیع ترقیاں ہوئیں۔اس دور کے شہزادوں اور سلاطین کی شعر و شاعری کی طرف توجہ، شاعری کے ارتقاء کا سبب بنی ہے، ان شہزادوں نے فن و ادب کی بھرپور حمایت کی اور جامی کے لیے ان کی حمایت اور اس دور میں اس شاعر کا عروج باعث بنا کہ جامی کو  تیموری دور کا سب سے بڑا اور عظیم ترین شاعر سجمھا جائے۔

جامی کی سوانح عمری

جامی نظام الدین احمد دشتی کے بیٹے ہیں اور ان کا لقب "خاتم الشعراء" ہے۔ وہ "کمال خوجندی" کے غزل لکھنے کے اسلوب اور نظامی اور امیر خسرو کے اسلوب مثنوی سے متاثر ہیں اور مختلف علوم و فنون میں مہارت کی وجہ سے ان کا شمار اسلامی ادب اور علوم اسلامیہ کے میدان میں نویں صدی قمری کی سب سے زیادہ جامع اور عظیم شخصیات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے عربی گرامر کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، پھر وہ علم ادب اور کلام کی تعلیم کے لیے ہرات چلے گئے۔ پھر وہ اں سے سمرقند چلے گئے جہاں فلکیات اور علم العداد کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ بعد ازاں وہ عرفان اور تصوف سے آشنا ہوئے اور شیخ نقشبندی کے شاگردوں کے حلقہ میں شامل ہو گئے اور تصوف میں اس قدر ترقی کی کہ پیر طریقت قرار پائے اور سلطان حسین مرزا بایقرا اور ان کے ڈپٹی وزیر امیر علیشیر نوائی کے ہاں عظیم مقام حاصل کیا، نیز الغبیگ تیموری کے تعاون سے آپ علم و معرفت کے میدان میں بہت زیادہ ترقی کرنے اور اہل علم و معرفت میں اعلیٰ مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پہلے تو انہوں نے اشعار میں "دشتی" کا تخلص استعمال کیا، لیکن پھر جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں، شہر جام میں اپنی جائے پیدائش اور شیخ احمد جامی سے عقیدت کی وجہ سے، انہوں نے اپنے لیے "جامی" کے تخلص کا انتخاب کیا۔ جامی کی تاریخ وفات جمعۃ المبارک 18 محرم  1492 عیسوی (898ھ) کو موجودہ افغانستان کے شہر ہرات میں بتائی گئی اور ان کی تاریخ پیدائش کے مطابق ان کی عمر 81 سال تھی۔ اس مشہور شاعر کا جسد خاکی  موجودہ افغانستان کے شہر ہرات میں سعد الدین کاشغری کے مزار کے پاس دفن ہے۔

نام عبدالرحمان جامی
ملک ایران
عرفیتخاتم‌الشعراء
تصنیف کا سالنویں صدی ہجری قمری
ہفت اورنگ نفحات الانس بہارستان دیوان اشعار لوایح منشأت

---- [مزید]

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: