مولوی

مولوی

مولوی

مولوی 7ویں صدی ہجری، خوارزم شاہ کے زمانے میں ایران کے صوبہ خراسان کے علاقہ بلخ میں پیدا ہوئے اور ترکی کے شہر قونیہ میں وفات پائی۔ مثنوی، دیوان غزلیات یا کلیات شمس، رباعیات، مکتوبات، فی مافیہ، اور مجالس سبعہ مولوی کی تصانیف ہیں، یہ سب فارسی زبان میں ہیں۔ایران کے اس مشہور شاعر کا پورا نام جلال الدین محمد بلخی ہے جو دنیا میں مولوی، رومی اور مولانا کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ترکی کا سفر اور شمس سے ملاقات

محمد بن حسین خطیبی جو بہاؤ الدین ولد اور سلطان العلماء کے نام سے مشہور ہیں، مولوی کے والد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مولوی کے والد نے اس وقت کے حکمران سلطان محمد خوارزم شاہ کی بے رحمی کو دیکھا اور نیشابور، بغداد اور مکہ سے ہوتے ہوئے شام گئے اور وہاں سے ارزنجان چلے گئے۔ارزنجان ترکی کے مشرقی اناطولیہ کے صوبوں میں سے ایک ہے۔ سلجوقی سلطان علاء الدین کیکباد نے مولوی کے والد سے ارزنجان جانے کی درخواست کی تھی۔ مولوی کیلئے اس سفر کا مقصد ایران کے ایک بہت ہی مشہور شاعر عطار سے ملاقات اور اسکی کتاب "اسرارنامہ" تحفہ کے طور پر حاصل کرنا تھا۔ مولوی نے عطار سے ملاقات کی اور برہان الدین محقق الترمذی، کمال الدین ابن عدیم (ایک عظیم حنفی فقیہ) اور محی الدین ابن عربی جیسے عظیم علماء کے سامنے زانوے تلمذ طے کیے، مگر وہ شخص جس نے آپ کے اندر انقلاب برپا کیا وہ شمس تبریزی تھے۔ شمس سے ملاقات سے پہلے رومی اپنے والد کی جگہ کبھی کچھ دیر مقرر کی حیثیت سے بیٹھتے اور کبھی کچھ دیر محی الدین ابن عربی کی جگہ اصول دین اور فروعات دین کو سمجھانے میں مصروف رہتے، مگر شمس تبریزی سے ملاقات اور آشنائی کے بعد انہوں نے تبلیغ و خطابت چھوڑ دی اور صوفی اور عارف بن گئے۔

شمس سے جدائی اور علمی آثار کی تخلیق

شمس اور رومی کی ملاقات کو ابھی 16 ماہ ہی گزر تھے کہ شمس اچانک قونیہ چھوڑ کر دمشق چلے گئے۔ مورخین نے اس علیحدگی کی وجہ انکے اردگرد کے لوگوں کے حسد کو قرار دیا۔ مولانارومی کے اصرار پر شمس ایک بار پھر قونیہ واپس پلٹے، لیکن یہ واپسی زیادہ دیر تک نہ چل سکی اور اس بار وہ قونیہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔" مثنوی معنوی" اور "دیوان شمس" رومی کی دو نمایاں اور پر اثر تصانیف شمس تبریزی سے علیحدگی کے بعد ہی منظوم صورت میں منظر عام پر آئیں۔ مولانا نے یہ دونوں کام حسام الدین چلبی کی حوصلہ افزائی سے لکھے۔ آج، رومی کے منظوم اور نثری آثار حکمت اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک اہم ذریعہ وشاہکار ہیں۔ رومی کی رہائش گاہ آج کے ایران، افغانستان، تاجکستان اور ترکی جیسے ممالک کے کچھ علاقوں میں تھی، لہذا اسی وجہ سے ان ممالک میں رومی کے علمی آثار کا ترجمہ کیا گیا ہے اور انہی ممالک میں ان کے بہت سے مداح بھی موجود ہیں۔

مولانا کی آخری غزل

مولانا رومی کا انتقال جمادی الثانی کی پانچویں تاریخ 672 ہجری کو 66 سال کی عمر میں شدید بخار اور بیماری کی وجہ سے ہوا۔ رومی کے عزیز و اقارب ان کی زندگی کے آخری لمحات میں ان کے بستر مرگ کے قریب موجود تھے اور ان کی موت کے بعد قونیہ کے مسلمانوں سے لے کر عیسائیوں اور یہودیوں تک نے 40 دن تک رومی کے انتقال پر سوگ منایا۔ بستر مرگ پر رومی کی آخری غزل یہ غزل سمجھی جاتی ہے: "بستر مرگ کے قریب سے چلے جاو اور مجھے اکیلا چھوڑ دو، مگر مجھے چھوڑنے سے رات کی تاریکی کو تکلیف ہو جائے گی۔" ہم ہیں اور موج سیاہ، رات سے دن اکیلے، تم معاف کرنے آؤ گے اور سزا دے کر جاؤ گے... مولانا کا مزار اورآپ سے منسوب عجائب گھر قونیہ میں واقع ہے۔ ایرانی قومی کلینڈر کے مطابق 30 ستمبر (شمسی مہینے مہر کی 8 تاریخ) کو مولوی کی یاد میں ہر سال ایران میں یوم مولوی منایا جاتا ہے۔

نام مولوی
ملک ایران
عرفیتمولوی، مولانا اور رومی
تصنیف کا سالساتویں صدی ہجری
مثنوی، دیوان غزلیات یا کلیات شمس، رباعیات، مکتوبات، فی مافیہ اور مجالس سبعہ

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: