عطار نیشابوری

عطار نیشابوری

عطار نیشابوری

عطار نیشاابوری 540 ہجری بمطابق 146 عیسوی نیشابور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پورا نام شیخ فرید الدین ابو حامد محمد ہے۔ نیشاپور کا "کودکن" گاؤں ان کا آبائی علاقہ ہے۔ ابوبکر ابراہیم عطار کے والد تھے۔ عطار چھٹی صدی کے آخر میں پیدا ہوئے اور ساتویں صدی کے شروع میں انتقال کر گئے۔ انہیں ایرانی شاعر اور عظیم مصنف کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کی شاعری تصوف کے میدان میں بلند مقام رکھتی ہے۔ اگرچہ عطار ادبی علوم اور فنون، الہیات اور فلکیات، قرآنی آیات اور احادیث کی تفسیر اور طب اور نباتیات میں ماہر تھے، مگر وہ تصوف کے میدان میں زیادہ مشہور ہیں۔ سعید نفیسی کا خیال ہے کہ عطار چھٹی اور ساتویں قمری صدی میں تصوف کے اہم سلسلہ کے شیخ نجم الدین کبریٰ (کبروی سلسلہ کے بانی) کے شاگرد ہیں۔ ابو سعید ابو الخیر (ایرانی عارف اور شاعر) پر عطار کا اثر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

 

عطار کے علمی آثار

عطار نیشاپوری کے صوفیانہ نظریات اور صوفیاء سے محبت نے بہت سی خانقاہوں اور درویشوں کو ان  سے گرویدہ کرکے ان کےبارے میں سوچنے اور ان کے اشعار اور علمی آثار کی قدر کرنے پر مجبور کیا۔ عطار نیشاپوری کا تخلص ان کے اشعار میں "فرید" اور "عطار" ہے۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ عطار نے اپنی دو کتابوں "خسرو نامہ" اور "مختارنامہ" کے مقدمہ  میں اپنی تصانیف کا ذکر کیا ہے جن میں 9 علمی آثار اشعار اور ایک علمی اثر نثر پر مشتمل ہے۔ عطار کی شاعرانہ تصانیف میں" الٰہی نامہ"، "اسرارنامہ"، "جواہرنامہ"، "خسرو نامہ"، "شرح القلب"، "مصیبت نامہ"، "منطق الطیر"، "دیوان اشعار"، مختارنامہ اور مشہور نثری تصانیف  میں "تذکرہ الاولیاء" شامل  ہیں۔ کتاب "تذکرہ الاولیاء" میں امام صادق (ع) سے لیکر منصور حلاج تک تمام اولیاء الہی کے قصے اور اقوال شامل ہیں اور امام باقر (ع) کے مختصر ذکر پر ختم ہوتی ہے۔ عطار کی دس کتابوں میں سے آٹھ کتابیں باقی ہیں، اور ان کی دو تصانیف، "جواہرنامہ" اور شرح القلب کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔

 

عطار کا مرقد

عطار کا بڑھاپا منگولوں کے ایران پر حملے کے ساتھ آیا، اور جیسا کہ مشہور ہے، وہ نیشاپور میں منگولوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ عطار نیشاپوری کا مقبرہ نیشاپور سے چھ کلومیٹر مغرب میں اور عمر خیام کے مقبرے کے قریب واقع ہے۔ اس مقبرے کی عمارت تیموری دور سے تعلق رکھتی ہے اور اسے امیر علی شیرنوائی نامی شخص نے تعمیر کروایا ہے۔ اس مقبرہ کی دوسرے پہلوی دور میں مکمل طور پر مرمت ہوئی۔ اور  مقبرے کی موجودہ عمارت کے آٹھ اطراف اور چار داخلی دروازے ہیں جن پر مکمل طور پر ٹائلوں سے بنا گنبد ہے۔ عطار نیشاپوری کا مقبرہ نیشاپور کے پرکشش مقامات میں سے ایک ہے اور ہر سال بہت سے سیاح یہاں اس مقبرے کو دیکھنے آتے ہیں۔ مشہور مصور کمال الملک اور ان کے علاوہ، تین دیگر مشہور شخصیات جن کا نام پرویز مشکاتیان (گلوکار اور موسیقار)، فریدون گرایلی (ماہر تاریخ) اور پہلوان شورورزی (نیشاپور کے عظیم کھلاڑی) بھی شیخ عطار کے مقبرے کے قریب دفن ہیں۔ 14 اپریل ایرانی قومی کیلنڈر کے مطابق شمسی مہینے فروردین کی 25 کو "یوم عطار" کا نام دیا گیا ہے۔

نام عطار نیشابوری
ملک ایران
تصنیف کا سالساتویں صدی
الٰہی نام اسرارنامہ مصیبت‌نامہ تذکرةالاولیا منطق‌الطیر جواہرنامہ خسرونامہ مختارنامہ پندنامہ اشترنامہ نزھۃ الحجاب بیان‌الارشاد سی‌فصل ہیلاج‌نامہ وصلتنامہ

---- [مزید]

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: