خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی رح
حافظ کا نام محمد ،لقب شمس الدین اور تخلص حافظ تھا۔ حافظ نے خود اپنا نام یوں تحریر کیا ہے : محمد بن المقلب بہ شمس الحافظ الشیرازی۔ حافظ شیرازی کے والد بہاء الدین اصفہان میں قیام پذیر تھے۔ وہ اتابکوں کے عہد میں شیراز آئے اور یہیں رہ گئے۔ خواجہ حافظ کی والدہ گاذرون کی رہنے والی تھیں۔ بہاء الدین کا پیشہ تجارت تھا اس لیے انھوں نے خوش حال زندگی بسر کی۔ ان کے تین لڑکے تھے۔ سب سے چھوٹے خواجہ حافظ تھے۔ والد کے انتقال کے بعد بھائیوں نے سب مال و متاع ختم کر دیا اور دونوں بھائی شیراز چھوڑ کر تلاش معاش میں نکل گئے لیکن والدہ حافظ کے ساتھ شیراز ہی میں رہیں۔ مفلسی کی بنا پر انھوں نے اپنے لڑکے کو ایک شخص کے سپرد کر دیا۔ حافظ کو اس کا طور و طریق پسند نہ آیا اس لیے انھوں نے نانبائی کی دوکان پر خمیر گری شروع کی۔ جو مزدوری ملتی اس کو تین حصوں میں تقسیم کرتے۔ ایک حصہ والدہ کو دیتے، ایک استاد کو اور تیسرا خیرات کر دیتے۔ اس طرح انھوں نے تعلیم بھی حاصل کی اور قرآن بھی حفظ کر لیا۔ ان کے اساتذہ میں قوام الدین عبد اللہ ((۱۳۸۰)) بھی تھے۔ حافظ نے اس دور کی اعلی تعلیم پائی۔ قرآن حفظ کیا اور اس کا گہرا مطالعہ کیا۔ اسی مناسبت سے حافظ تخلص اختیار کیا۔ انھوں نے جب شعر گوئی شروع کی تو شیراز میں شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ حافظ نے کم سنی کے باوجود شعر کہے اور محفلوں میں سنائے۔
حافظ نے چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ شیخ جمال الدین ابو اسحاق اینجو ان کا بہت قدرداں تھا۔ اس کے بعد مبارز الدین نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ لیکن پانچ سال سے زیادہ حکومت کرنے کا موقع نہ ملا۔ اس کے بیٹے جلال الدین شاہ شجاع ((۱۳۵۷ - ۱۳۸۴)) نے تخت پر جلوس کیا پھر اس کے بھیدی جے شاہ منصور بن شرف الدین مظفر بن مبارز الدین ((۱۳۸۷ - ۱۳۹۲)) کو شیراز کی حکومت ملی۔ حافظ نے اپنی غزلوں میں اں سب کی تعریف کی ہے۔ بادشاہوں کے علاوہ اور بھی نام ان کی غزلوں میں ملتے ہیں ایک قطعہ میں پانچ نام آئے ہیں۔ شاہ ابو اسحاق، شیخ امین الدین ابدالی، قاضی عضد الدین عبد الرحمن یحیی ((م۔ ۱۳۵۵)) جن کی تصنیف علم کلام میں "مواقف" شامل درس رہی ہے۔ حاجی قوام الدین حسن، مالیات کی محصلی کے عہدہ پر فائز تھے اور پانچویں مجد الدین اسماعیل ((م۔ ۱۳۵۵)) قاضی شیراز اور مدرسہ مجدیہ کے بانی اور معلم۔ حافظ کے ان سب سے خوشگوار تعلقات تھے۔ حافظ کی شہرت ایران سے باہر بھی پہنچی۔ چنانچہ سلطان احمد بن شیخ اویسی ((۱۳۸۲ - ۱۴۱۰)) والئی بغداد نے حافظ کو بغداد آنے کی دعوت دی۔ محمود شاہ بہمنی ((۱۳۷۸ - ۱۳۹۷)) نے انھیں گلبرگہ (دکن) بلایا۔ غیاث الدین بن سکندر نے بنگالہ آنے کے لیے زاد راہ بھیجا لیکن انھوں نے غزلیں بھیج دینے پر اکتفا کیا اور کہیں نہ گئے۔ دکن جانے کے لیے ہرمز (بندرگاہ) تک آئے۔ کشتی میں بیٹھے لیکن باد مخالف سے ان کا ارادہ فسخ ہو گیا۔
دراصل انھیں خاک مصلی اور رکنا باد چھوڑنا گوارا نہ تھا۔ ہرمز کے علاوہ دو سفر اور کیے ایک نصرت الدین کی طلبی پر یزد اور آخری عمر میں شاہ منصور کی طلبی پر اصفہان گئے۔
حافظ کی شاعری میں ناؤ نوش، مے و نغمہ اور شاہد و شراب کا ذکر بار بار آتا ہے۔ وہ طرح طرح سے عشقیہ مضامین باندھتے ہیں، ان میں تازگی و شگفتگی ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس راہ سے گزرے ہیں اور عشق مجازی کی وادیوں کی سیر کی ہے۔ وہ عشق کے اسرار و رموز کو اپنے اشعار میں کہیں پنہاں اور کہیں آشکارا بیان کرتے ہیں۔ جب وہ عمر کی ایک خاص منزل پر پہنچتے ہیں تو ان میں خدا شناسی اور تصوف کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہی مے و نغمہ اور شاہد و شراب، مستی و سرشاری کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب وہ سنائی، عطار، مولانائے روم اور سعدی کا مسلک اختیار کرتے ہیں اور توحید اور تصوف کے مضامین خواہ قصیدہ ہو یا غزل ہر صنف میں ادا کرتے ہیں۔ وہ چونکہ حقیقت کے پرستار ہیں اس لیے مکر و ریا اور تزویر سے متنفر ہیں اسی لیے وہ شیخ و زاہد پر لعن طعن کرتے اور ان کے خرقہ سالوسی کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیشتر شعرا کے کلام کو پیش نظر رکھا ہے لیکن ان کی تقلید نہیں کی۔ وہ اپنے کلام کی نغمگی و حلاوت اور عذوبت سے پیشروؤں سے آگے نکل گئے۔ حافظ نے اچھوتا تخیل پیش کیا ہے اور ایسے الفاظ، اصطلاحیں اور ترکیبیں فارسی ادب کو دی ہیں جو اس سے پہلے اس میں نہ تھیں یا تھیں تو اپنے معانی محدود رکھتی تھیں۔ ان کے اشعار میں صنائع و بدائع بھی ملتے ہیں اور تشبیہوں اور استعاروں کی بھی کمی نہیں۔ غرض حافظ نے تغزل، تعشق اور تصوف کو جس طرح شیر و شکر کیا اس کا کوئی جواب نہیں۔
حافظ نے جب عشق حقیقی اختیار کیا تو ان کا شباب آخری منزلیں طے کر رہا تھا۔ وہ جذب و کیف کے عالم میں رہتے۔ چنانچہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ اپنی سیاحت کے دوران شیراز پہنچے تو حافظ سے ملے۔ وہ اپنے ملفوظات میں حافظ کو "بیچارہ مجذوب شیرازی" کہتے ہیں۔ آپ نے شیراز میں زیادہ عرصہ تک قیام کیا اور حافظ سے کئی ملاقاتیں کیں اور اپنی یہ رائے دی کہ "ہر چند کہ مجذوبان روزگار" محبوبان کرد گار را دیدہ بودیم اما مشرب و بے بسیار عالی یافتیم"۔
حافظ نے ۱۳۸۹ میں شیراز میں وفات پائی اور اپنے محبوب مقام "مصلی" میں دفن ہوئے۔
نام | خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی رح |
ملک | ایران |
دیوان حافظ |
حافظ
"دیوان حافظ" ان کتابوں میں سے ایک ہے جو اکثر ایرانیوں کے گھروں میں پائی جاتی ہیں۔
حافظ، "لسانالغیب" اور "شیرین سخن"
دیوان حافظ کی غزلیں لوگوں کے لیے رہنما ہیں۔ لوگ، حافظ کے جس دیوان کو بھی نیت سے کھولتے ہیں، اسکے اشعار سے نیک فال کی امید رکھتے ہیں، گویا فال کے ذریعہ حافظ سے اپنے نیک کام میں بہتری یا مشکل کی تصدیق حاصل کرتے ہیں۔ سردیوں کی طویل راتوں، خاص طور پر "شب یلدہ" میں، جو موسم خزاں کا آخری دن اور سردیوں کی پہلی رات ہے، لوگ خاندانی محفلوں میں حافظ کی غزلیں پڑھتے اور ان کی بہترین تشریح کرتے ہیں۔ اگر آپ کو ایران کے بڑے شہروں میں سفر کرنے کا موقع ملا ہو تو، آپ کو ایران کی بڑی شاہراوں پر ایسے لوگ ضرور ملیں گے جو آپ کو اپنی قسمت جاننے کے لیے تھوڑی دیر انتظار کرنے کا کہیں گے تاکہ وہ آپ کیلئے فال نکال سکیں۔ وہ حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ در حقیقت ایرانی لوگ دیوان حافظ کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ، چونکہ یہ شاعر پورے قرآن کریم کا حافظ ہے، لہذا اسرار الٰہی سے لبریز ہے، لہذا ہمارے مستقبل کے بارے میں بخوبی بتا سکتا ہے۔ ایرانیوں میں حافظ کو "لسان الغیب" بھی کہا جاتا ہے۔ جسکا مطلب ہے کوئی ایسا شخص جو پوشیدہ رازوں کے بارے میں جانتا ہو۔ اسی طرح فصاحت زبان کی وجہ سے ایرانی حافظ کو " شاعر شریں" یعنی میٹھا شاعر کہتے ہیں۔
حافظ اور گوئٹے
"حافظ"، خواجہ شمس الدین محمد کا تخلص ہے اور تخلص ان شاعروں کا شاعرانہ نام ہوتا ہے جسے وہ نظم کے آخر میں بیان کرتے ہیں۔ حافظ نے جوانی سے ہی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور پورا قرآن کریم حفظ کر لیا۔ آپ نے قرآن کریم کی 14 مختلف قرائتوں کے مطابق حفظ کیا ۔ حافظ کو عربی ادب اور اسلامی علوم پر مکمل عبور حاصل تھا اور علم تفسیر، علم کلام، حکمت اور آداب اسلامی پر بھی تسلط تھا۔ حافظ کے زیادہ تر اشعار غزلوں پر مبنی ہیں۔ لغت میں غزل کا مطلب محبوب سے بات کرنا اور اس سے اظہار محبت کرنا ہے اور ادب میں غزل سے مراد ایک ایسی نظم ہے جس میں نظم کے دونوں مصروں کا قافیہ اور ردیف نظم کے پہلے مصرے کے قافیہ اور ردیف سے مطابقت رکھتا ہو۔ فارسی ادب کی مشہور شخصیات میں حافظ غزلیاتی شاعری میں بے مثل و مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ کی غزلوں کا دیوان قرآن کریم کے بعد ایران میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے۔ نوجوان نسل بھی حافظ اور اسکی غزلوں کو پسند کرتی ہے۔ حافظ فردوسی، نظامی گنجوی، مولانا، سعدی، عراقی، خواجوئی کرمانی، عبید زاکانی اور سلمان ساوجی جیسے اپنے سے پہلے فارسی ادب کے ممتاز شاعروں سے بہت متاثر تھے اور اپنے سے بعد والے شعراء کو بہت متاثر کیا۔ حافظ سے متاثر غیر ایرانیوں میں جرمن کا شاعر گوئٹے بھی شامل ہے۔ گوئٹے نے اپنا "مشرقی مغربی دیوان" حافظ کے دیوان کے زیر اثر ہی لکھا۔ مشہور ہے کہ گوئٹے نے حافظ کو مخاطب کر کے کہا: "اے حافظ میری خواہش ہے کہ میں صرف آپ ہی کا شاگرد بنوں"۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی میں حافظ کی نظموں کا یورپی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔
حافظ کا ایران کے شہر شیراز میں انتقال
حافظ 1325ء (726ھ قمری) میں شیراز میں پیدا ہوئے اور1386ء ( 792ھ قمری) میں شیراز ہی میں وفات پائی۔ دیوان حافظ کی پہلی غزل" الا یا ایّها السّاقی ادرْ کأساً و ناولْها، "جس نے پہلے محبت کو تو آسان بنایا، مگر پھر مصیبتوں نے گھیر لیا۔" سے شروع ہوتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ "غزل فاتحہ"، جب آئے ہو، تھکے ہوئے کے سر پر تو پڑھو، اپنے ہونٹ کھولو، کیونکہ تیرے ہونٹ سے ٹپکنے والے لعل و گوہر مردے میں جان ڈال دیتے ہیں۔ "جو سوال کرنے آتا ہے، اور فاتحہ پڑھ کر چلا جاتا ہے، گویا میں اپنے جسم کی روح کو اسکی طرف بھیجتا ہوں" حافظ کے دیوان کی آخری غزل ہے۔ حافظ کی وفات کے تقریباً 65 سال بعد پہلی بار ان کی قبر پر ایک مقبرہ بنایا گیا۔ شیراز میں حافظ کا مرقد "حافظیہ" کے نام سے مشہور ہے۔
حافظ کے اشعار اور روایتی موسیقی
حافظ کی شاعری نے روایتی ایرانی موسیقی کی کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ شیراز میں حافظ کا مقبرہ ایک سر سبز و شاداب باغ کے وسط میں واقع ہے۔ حافظ کےچاہنے والے مرحوم محمد رضا شجریان (ایران میں روایتی موسیقی کے سب سے مشہور گلوکار) کی آواز میں حافظ کی غزلون پر مبنی روایتی موسیقی سننے کے لیے اسکے مقبرے کے صحن میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ حافظ کی شاعری روایتی موسیقی کے ذریعے ایرانی عوام کے دلوں پر دو برابر اثر انداز ہوئی۔ ایرانی کیلنڈر کے مطابق 12اکتوبر(شمسی مہینے مہر کی20 تاریخ) کو یوم حافظ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس دن ایران کے شیراز شہر میں دنیا بھر کے محققین کی موجودگی میں حافظ کی یاد میں تقریب منعقد کی جاتی ہے۔
نام | حافظ |
ملک | ایران |
عرفیت | لسانالغیب اور شیرین سخن یعنی پوشیدہ راز جاننے والا اور شریں گفتار، جوحافظ کا لقب ہے۔ |
تصنیف کا سال | ساتویں صدی |
حافظ کے اشعار کا دیوان |