ابن مقفع
ابن مقفع، ابو محمد عبداللہ متولد 106ھ (724ء) صوبہ فارس کے جور نامی علاقے (جسے اب فیروز آباد کہا جاتا ہے) میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک مصنف اور مترجم ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کا نام روزبہ تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد ابن مقفع نے اپنا نام عبداللہ اور لقب ابو محمد رکھا۔ ان کا خاندان صوبہ فارس کے رئوسا میں شمار ہوتا تھا۔عراق کے حکمران حجاج بن یوسف نے ابو محمد عبداللہ کے والد کو اپنی حکومت کے ٹیکس کے امور کا انتظام سونپا۔ کام میں ناانصافی کی وجہ سے آپ کے والد کو سرکاری ایجنٹوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کا ہاتھ بھی کاٹ دیا ۔ ابو محمد عبداللہ کو ابن مقفع کا خطاب اسی وجہ سے دیا گیا، کیونکہ انکے والد کا ہاتھ ان اذیتوں کی معذور ہو گیا تھا۔
آثار
ابن مقفع نے صوبہ فارس چھوڑنے کے بعد، جہاں وہ پیدا ہوئےتھے، کرمان کا سفر کیا۔کرمان میں وہ داؤد بن یزید بن عمر بن ہبیرہ کے سیکرٹری تھے۔اموی حکومت کے خاتمے کے بعد، انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ کرمان سے بصرہ کیلئے سفر کیا۔ ابن مقفع ساسانی پہلوی زبان میں ایک اشرافیہ تھےجنہوں نے بصرہ کے اساتذہ کے ذریعے فصیح اور مکمل عربی زبان سیکھی۔ وہ بصرہ میں تقریباً 10 سال رہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کی تصانیف اسی دور میں مرتب اور ترجمہ ہوئیں۔ کتاب "کلیلہ و دمنہ" کا ترجمہ ابن مقفع کا سب سے اہم ادبی کام ہے۔انہوں نے پہلوی زبان (قدیم فارسی زبان ) سے "کلیلہ و دمنہ" کا عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔اس کتاب کا نثری ترجمہ کلاسیکی عربی نثر کے بہترین شاہکاروں میں سے ایک ہے۔"کلیلہ و دمنہ" جانوروں کی زبان حال پر لکھی گئی ہے۔اس کتاب میں بہت سے افسانے ، کہانیاں اور نصیحتیں ہیں۔ اس کتاب کا مواد دانشوروں اور حقیقت و معنویت کے متلاشیوں کے لیے فرحت کا باعث ہے اور اہل دانش حضرات اس کتاب سے عام لوگوں کی نسبت زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ کتاب سنسکرت میں لکھی گئی اور پھر پہلوی میں ترجمہ کی گئی، لیکن اس کا اصل ہندی نسخہ ختم ہوگیا اور اس کا پہلوی ترجمہ سریانی اور عربی تراجم کے حوالے کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ بعد میں پہلوی ترجمہ نایاب ہو اور غائب ہو گیا ، جبکہ عربی ترجمہ تمام تراجم کی بنیاد بنا۔ عربی ترجمے میں ابن مقفع نے کتاب "کلیلہ و دمنہ" میں "برزویہ طبیب" کے عنوان سے ایک باب کا اضافہ کیا ہے۔ یہ باب ایک ڈاکٹر "برزویہ" کے کلام سے اس کے باطنی منصفانہ رویے اور اپنی انا کے ساتھ جدوجہد اور خوشی اور سچائی کی تلاش میں بیان کردہ ایک تقریر ہے۔"کلیلہ و دمنہ" کے جتنے بھی تراجم کیے گئے ہیں ان میں ابن مقفع کا ترجمہ، وہ واحد ترجمہ ہے جس کے صحیح ہونےکا اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
ایرانی ثقافت کا تعارف
انوشیروان کی کتاب "تاج نامہ"، ساسانی اصولوں کی کتب، "کتاب مزدک" اور " کتاب التاج" ابن مقفع کی کتابوں میں سے ایک ہیں جن کا انہوں نے وسطی فارسی سے عربی زبان میں ترجمہ کیاہے۔ ابن مقفع نے اپنے ان علمی آثار کے ذریعہ ایرانی ثقافت کو عرب ممالک میں متعارف کروایا ۔کہا جاتا ہے کہ عربوں نے یونانی فلسفیوں کے علمی آثار بارے بھی، سب سے پہلے ابن مقفع کے تراجم سے ہی واقفیت حاصل کی ہے۔ انہوں نے کتیگوریوس (ارسطو کے مضامین) جیسی کتابوں کا بھی عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ عظیم خطابت کی کتابیں (الادب الکبیر)، مختصر خطابت (الادب الصغیر) اور "رسالہ الصحابہ" بھی ابن مقفع کی ہی تصانیف ہیں۔ ان علمی آثار میں ابن مقفع کی فصیح و بلیغ نثر آج بھی عربی مصنفین کے لیے ایک شاہکار ہے۔آپ کی تصانیف کو عرب ممالک کی یونیورسٹیوں میں فصیح عربی نثر کے بہترین شاہکار کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ابن مقفع کی کتاب "کلیلہ و دمنہ" کا دنیا کی مختلف زبانوں میں متعدد بار ترجمہ ہو چکا ہے۔
آپ کے قتل کی وجوہات
کہا جاتا ہے کہ ابن مقفع کی موت سیاسی وجوہات پر ہوئی۔ مگر اس بات پر اتفاق ہے کہ انہیں 36 سال کی عمر میں قتل کیا گیا۔ آپ کی موت کے بارے میں دو طرح کے نظریات بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ بصرہ کے حاکم کو معلوم ہوا کہ وہ مذہبی شخصیت نہیں ہیں اور انہیں قتل کرنے کا حکم دیا، جو زیادہ معتبر نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ ابن مقفع کا کتاب" زینھار نامہ " کا لکھنا، ابو سفیان سے نفرت اور شاپور پر حکومت کرنے سےخلیفہ کو روکنے کیلئے منصوبہ بندی، دوسرے عباسی خلیفہ منصور کے غم و غصہ اورآپ کے قتل کا باعث بنی۔
نام | ابن مقفع |
ملک | ایران |
عرفیت | ابن مقفع |
تصنیف کا سال | دوسری صدی ہجری |
کلیلہ و دمنہ کا ترجمہ، الادب الکبیر، الادب الصغیر، رسالہ الصحابہ |