ناصر خسرو

ناصر خسرو

ناصر خسرو

ابو معین ناصر بن خسرو بن حارث قبادیانی بلخی (جنہیں ناصر خسرو کہا جاتا ہے)  سنہ 992ء (382 ہجری قمری) میں شہر مرو (خراسان  ایران کا قدیم تاریخی شہرتھا جو اب ترکمانستان کا شہر ہے)کے گاؤں قبادیان میں پیدا ہوئے۔ ناصر خسرو کی نظموں میں پندو نصائح اور دانشمندانہ مواد موجود ہے اور حکیم، حکیم ناصر اور سید الحکماء آپ کے القابات ہیں۔ ناصر خسرو کو فارسی ادب کی تاریخ میں سب سے مشہور انقلابیوں میں سے ایک یا با الفاظ دیگر بڑا  انقلابی سمجھا جاتا ہے ۔ آپ نے اپنے سفرنامے کے آغاز میں کھل کر بیان کیا ہے کہ 40 سال کی عمر تک اگرچہ میں ایک عالم تھا، لیکن اس وقت تک دنیا کی تلاش میں تھا جب تک کہ ایک خواب نے میری زندگی اور تقدیر کو بالکل ہی بدل نہ دیا۔

ناصر خسرو کے خواب کی کہانی

ناصر خسرو اس ارتقاء اور تبدیلی کی کہانی اس طرح بیان کرتے ہیں: "ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا، تم اس میں سے کتنی شراب پیو گے، جو لوگوں سے عقل چھین لے گی، اگر تم ہوش میں ہو (ہوشیار ہو) تو بہتر ہے۔ میں نے جواب دیا کہ: دنیا کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے عالم اس کے علاوہ کوئی اور  چیز پیدا نہیں کر سکتے جس سے دنیا کی مشکلات کو دور کریں۔ اس نے جواب دیا: بے ہوشی میں سکون نہیں ہوتا۔ کسی عالم کو نہیں عالم کہا جا سکتا جو لوگوں کو بے ہوشی میں رہنمائی کرے، بلکہ آپ کو ایسی چیز تلاش کرنی  چاہیے جس سے لوگوں کی  عقل اور ذہانت میں اضافہ ہو۔ میں نے کہا: میں وہ  کہاں لاوں؟ کہا: "تلاش کرنے والا ہی پاتا ہے" پھر قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور پھر کچھ نہ کہا۔ یہی روشن خواب ناصر خسرو کے سات سال کا سفر شروع کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ایک ایسا سفر جس کے دوران وہ خانہ کعبہ کی چار بار زیارت کرتا ہے اور مصر میں فاطمی اسماعیلی خلفاء (اسلامی مکاتب فکر کے شیعہ فرقوں میں سے ایک فرقہ اسماعیلیہ ہے) کے دربار میں بھی جاتا ہے اور اسماعیلی شیعوں کے اصولوں اور عقائد کو دل کی اتھاء گہرائیوں سے قبول کرتا ہے۔  آپ کو المستنصر باللہ (فاطمی خلیفہ) سے حجت جزیرہ خراسان کا خطاب ملا اور آپ خراسان میں اسماعیلی عقیدے کی تبلیغ کے لیے مامور ہوگئے۔ کتاب "ناصر خسرو کا سفر" آپ کے سات سالہ سفر کے خاطرات پر مبنی رپورٹ ہے۔ آپ کی دیگر تصانیف میں سے"زاد المسافرین"، "وجہ دین"، "جامع‌الحکمتین"، "خوان الاخوان"، "گشایش و رہایش"، "سفرنامہ"، "بستان العقول"، "دلیل المتحیرین"، "لسان العالم" اور"دیوان شعر" قابل ذکر ہیں۔

عوام کی جہالت کے خلاف ناصر خسرو کی روشن خیالی

اس سے پہلے کہ اپنا طرز عمل بدلیں، ناصر خسرو سلجوق دربار کے معززین میں سے ایک تھے اور آپ  نے اپنی زندگی میں مکمل خوشحالی حاصل کی۔ آپ  ایسے دور میں رہتے تھے جب ہر آنکھ ، معاشرے کے  بالائی اور نچلے طبقات میں ظلم، بدعنوانی، امتیازی سلوک اور جہالت کو واضح طور پر دیکھ سکتی تھی۔ اس وقت کے معاشرے میں رشوت خوری اپنے عروج پر تھی۔ ناصر خسرو کی شاعری میں "عام لوگ" وہ ہیں جنہوں نے عقل اور فکر کی قوت کی  چھٹی کر دی ہو اور چیزوں کو پرکھتے ہوئے وہ سطحی اور ظاہری طور پر دقت نہیں کرتے، اور وہ کسی بھی طبقے کا بنیادی یا سطحی تجزیہ کیے بغیر، تعصب کے ساتھ اور منفی سوچ کیساتھ دوسروں  کی اندھی تقلید کرتے ہیں ۔ ناصر خسرو کے دیوان کی کتاب میں ٹھوس ثبوت کیساتھ عام لوگوں کی جہالت اور شور مچانے والوں پر، آپ کے کوڑے برستے صاف نظر آتے ہیں۔

ناصر خسرو اور احتجاجی قصیدہ

ناصر خسرو سے پہلے، قصیدے کی شکل زیادہ تر تعریفی تھی، لیکن ناصر خسرو نے شکل اور معنی دونوں کے لحاظ سے قصیدے کی ساخت کو توڑ ڈالا۔اس ممتاز شاعر کے بیشتر قصائد دنیا کی مذمت میں لکھے گئے۔ ناصر خسرو نے اپنے اشعار میں دنیا کا موازنہ دیو، جانوروں اور فطرت کے بے جان مظاہر سے کیا ہے اور دنیا کی فریب کاری، ظلم اور عدم استحکام کو ظاہر کرنے کے لیے مختلف تشبیہات کا  استعمال کیا ہے۔ دنیا سے متعلق تشبیہات اور استعاراتی کمپوزیشنز آپ کی تخلیقی قوت کے علاوہ فارسی زبان و ادب میں آپ جیسے عظیم شاعر کی مہارت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اپنے اشعار میں آپ  موجودہ حالات پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار خدا ئے آسمان و زمین کے سامنے شکایت کی صورت میں کرتے ہیں اور اس پروجیکشن کے ساتھ معاشرے پر حکمرانی کرنے والے تشدد اور جبر پر تنقید کرتے ہیں۔ نظریات میں "احتجاج" اور "استقامت" کے دو عناصر ناصر خسرو کی شاعری کو دوسرے شاعروں سے ممتاز کرتے ہیں اور انہیں خراسانی انداز میں احتجاجی شاعری کا معیاری علمبردار بناتے ہیں، آپ کہتے ہیں: "ہر وعدہ اور ہر وہ قول جو اس شخص نے کیا اور کہا / وہ قول ٹوٹ گیا اور وہ وعدہ جھوٹا تھا / سو وہ جو کچھ دن رات کہتے ہیں/ وہ سب جھوٹ ہے اور وہ جھوٹ کی اولاد ہیں۔ "آیات اور احادیث کا استعمال کرتے ہوئے اور دنیا کا اپنے اردگرد کے احساسات سے موازنہ کرتے ہوئے ناصر خسرو نے لوگوں کو دنیا سے متاثر ہونے اور انسانی اصلیت سے دور ہونے کے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ شاعر کی آواز ان کے اشعار میں ایک ٹھوس انسانی گونج ہے جو ہمیشہ انسانیت اور مذہب کی تعریف کرتی ہے اور اسے بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

وفات

ناصر خسرو نے مجبور ہو کر افغانستان کے علاقے "بدخشاں" کے گاؤں "یمگان" کی جانب مہاجرت کی۔ انہوں نے یامگان گاؤں میں اپنی 15 سالہ زندگی کا موازنہ جیل سے کیا ہے فرماتے ہیں : آپ سے ملے ہوئے پندرہ سال گزر چکے ہیں، کیوں اور کس لیے؟  کیونکہ میں جیل میں ہوں... تاہم اس علاقے کے لوگ آپ کی بہت عزت کرتے ہیں اور آپ کو "حجت"، "سید شاہ ناصر ولی"، "پیر شاہ ناصر"، "پیر یمگان"، "پیر کوہستان" اور "پیر کامل" جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں۔

نام ناصر خسرو
ملک ایران
عرفیتحکیم، حکیم ناصر، سیدالحکما
تصنیف کا سالپانچویں صدی شمسی
ناصر خسرو کا سفرنامہ کتاب زادالمسافرین، یعنی مسافروں کیلئے زاد راہ کتاب جامع‌الحکمتین، یعنی حکمتوں کا مجموعہ کتاب خوان الاخوان، یعنی بھائیوں کے بھائی گشایش و رهایش، یعنی اضافہ اور ترک لسان العالم، یعنی دنیا کی زبان دیوان شعر، اشعار کا دیوان

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: