خواجه نصیرالدین طوسی

خواجه نصیرالدین طوسی

خواجه نصیرالدین طوسی

خواجہ نصیر الدین طوسی کو ساتویں صدی ہجری کے ایک عظیم  ادیب، فلسفی، ماہر ریاضیات، ماہر فلکیات اور اسلامی دنیا کے ممتاز، جبکہ ایرانی سائنسدانوں میں سے ایک عظیم سائنسدان اور شیعہ مذہب کا سب سے بڑا فقیہہ سمجھا جاتا ہے،  جس نے علم ریاضی میں مثلثیات کے اصول کو وسعت دی۔ آپ کی ولادت ایران کے شہر "ساوہ" کے علاقہ "جہرود" میں ہوئی۔ خواجہ نصیرالدین طوسی کے القاب "استاد البشر"، " عقل حادی عشر" اور " استاد الثالث" ہیں۔ آپ کے والد محمد بن حسن، طوس نامی علماء، فقہا اور محدثین میں سے تھے۔ خواجہ نصیرالدین طوسی نے اپنے والد سے مذہبی اور ادبی علوم کی تعلیم حاصل کی اور پھر مختلف فکری علوم جیسے کہ الٰہیات، ریاضی اور کمیسٹری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ کچھ عرصہ کے بعد حصول علم کے لیے نیشاپور تشریف لے گئے، جبکہ اس وقت نیشاپور کو بڑے بڑے علماء کی موجودگی میں ایک عظیم  علمی و تحقیقی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ معین الدین سالم بن بدران مصری اور کمال الدین یونس موصلی خواجہ کے اساتذہ تھے۔ یہ اساتذہ زیادہ تر علوم خصوصاً علم ریاضی کے بہت ماہر تھے۔ انہوں نے فرید الدین داماد نیشاپوری سے "حکمت مشاء" اور "عملیات" پڑھی اور رفتہ رفتہ تمام  نظری اور عملی (سائنسی اور آرٹس )کے علوم میں مہارت حاصل کی اور ایک ممتاز عالم کی حیثیت سے شہرت پائی۔

مراغہ  رصدگاہ (آبزرویٹری ) کا قیام

خواجہ نصیر الدین طوسی ایران پر منگول حملے کے زمانے میں مقیم تھے۔ وہ اپنی تحقیق کے لیے محفوظ جگہ کی تلاش میں تھے، جب قہستان کے اسماعیلی فرقے کے حکمران ناصر الدین عبدالرحمن نے انھیں "الموت" میں مدعو کیا، تو اس دوران انہوں نے اخلاق ناصری کے نام سے کتاب "طہارۃ العراق ابن مسکویہ" کا ترجمہ کیا اور کتاب "رسالہ معینیہ"  بھی لکھی۔ منگولوں کے ہاتھوں اسماعیلی حکومت کے خاتمے کے بعد، خواجہ نے "ہلاکو خان" کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور موت سے بچ گئے۔ اور  ہلاکو کے تعاون سے انہوں نے "مراغہ  طصد گاہ(آبزرویٹری) قائم کی۔ یہ رصد گاہ ایک بڑی لائبریری سے لیس تھی جس میں 40,000 کتابیں تھیں اور اسے اس وقت کا سائنسی مرکز کہا جاتا تھا۔ خواجہ نصیر الدین طوسی کی تصانیف 150 مقالات اور خطوط کے طور پر موجود تھے۔ انہوں نے مذہب امامیہ کی ترویج اور نشرواشاعت کی غرض سے کتاب "تجرید العقائد " لکھی، جسے شیعہ عقائد کا اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے اور اس پر 400 سے زائد تفسیریں اور حواشی لکھے جاچکے ہیں۔

بطور ماہر ریاضیات

خواجہ نصیر نے ریاضی میں، گزشتہ ریاضی دانوں  کے نظریات پر ریاضیاتی حاشیے اور مقالے لکھے۔ انہوں نے ریاضی، جیومیٹری اور مثلثیات پر بھی بہت سے جدید مقالے لکھے اور ان علمی آثار میں انہوں نے خیام کے علمی کام کو جاری رکھا اور کمپیوٹیشنل ریاضی کو تیار کرنے میں مدد کی۔ جیومیٹری میں، خواجہ نصیر نے بھی خیام کے علمی کام کی پیروی کی اور "الرسالۃ الشافعی" میں یوکلڈ (اقلیدس) کے پانچویں اصول کا جائزہ لیا، لیکن ریاضی میں ان کی سب سے نمایاں شراکت مثلثیات میں تھی، جس نے کتاب "شکل القطاع"  کے عنوان سے مثلثیات کو خالص ریاضی کی ایک آزاد شاخ کے طور پر پھیلانے میں مدد کی۔ ریاضی میں سائنز کے کروی قانون کو دریافت کرنا اور فلکیات میں طوسی پیئرز(جفت) نامی ایک ہندسی طریقہ ایجاد کرنا آپ کے علمی آثار میں شامل ہے۔ کچھ محققین خواجہ نصیر طوسی کو ریاضی میں مثلثیات کی سائنس کے خالق کے طور پر متعارف کراتے ہیں تو کچھ دوسرے، مثلثیات کی سائنس کو پھیلانے والوں میں سے ایک کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ خواجہ کی مثلثیات کی کتابوں کا سولہویں صدی میں فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ عرب دنیا کے مشہور مورخ ابن خلدون نے طوسی کو عالم اسلام کے بعد ایران کا سب سے بڑا سائنسدان قرار دیاہے۔ خواجہ نصیر کو سائنسز میں ابن سینا کے برابر سمجھا گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شیخ الرئیس(یعنی ابن سینا) طب میں اس دور کے ماہر تھے اور خواجہ نصیر علم ریاضی میں  اس دور کے  دوسروں دانشوروں  پر سبقت لے گئے۔

علمی آثار اور طلباء

خواجہ نصیرالدین طوسی نے زیادہ تر اپنے زمانے کے رائج علوم میں علمی کام اور تالیفات کیں جن میں فقہ، حکمت، الٰہیات، منطق، اخلاقیات، طب، فلکیات، ریاضی، ادب، اور فن شاعری اور موسیقی شامل ہیں اور علامہ حلی، قطب الدین شیرازی، کمال الدین افسطی،  سید رکن الدین استرآبادی اور ابن الفوطی بغدادی جیسے بزرگ دانشور آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔"تحریر اصول اقلیدس"، "تحریر مجسطی"، "زیج ایلخانی"، "اخلاق ناصری"، "اوصاف الاشراف"،" اساس الاقتباس" اور"زبده ادراک فی هیأت افلاک و شرح اشارات"  خواجہ طوسی کی تالیفات  ہیں۔ علامہ حلی جو خواجہ نصیرالدین طوسی کے شاگرد ہیں، ان کے بارے میں کہتے ہیں: خواجہ نصیر الدین طوسی ہمارے زمانے کے سب سے اچھے اہل علم تھے اور عقلی اور عملی علوم پر آپ کی بہت ساری تصنیفات تھیں۔ وہ ان لوگوں میں سے سب سے بہتر ہیں جن سے ہم نے کسب فیض کیا ہے۔

وفات

تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ 1273ء (672 قمری) میں رصد گاہ مکمل کرنے کے بعد خواجہ صاحب بیمار ہوئے اور 18 ذی الحجہ کو عید غدیر کے دن وفات پائی۔ اس وقت خواجہ صاحب بغداد میں مقیم تھے اور ان کی وصیت کے مطابق ان کی میت کو کاظمین میں ہی دفن کیا گیا۔ 24 فروری، جو کہ ایران کے قومی کیلنڈر کے مطابق 5 استفند شمسی ہے، اس دن کو اس عالم اور سائنسدان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے  "یوم طوسی" اور یوم انجینئر کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

نام خواجه نصیرالدین طوسی
ملک ایران
عرفیتاستادالبشر، عقل حادی عشر اور معلم ثالث
تصنیف کا سالساتویں صدی ہجری
اصول اقلیدس کی تصنیف حریر مجسطی زیج ایلخانی اخلاق ناصری وصاف الاشراف ساس الاقتباس زبده ادراک فی هیأت افلاک و شرح اشارات

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: