نظامی

نظامی

نظامی

جمال الدین ابو محمد الیاس بن یوسف بن ذکی بن موید، نظامی کے لقب سے شہرت پانے والے ، بارہویں عیسوی (چھٹی صدی ہجری قمری)  کے یہ شاعر "گنجہ" نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ نظامی کو ادبی علوم، فلکیات، اسلامی علوم، علم فقہ، علم کلام اور عربی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ شاعری میں کہانی اور تمثیل، جسے "گائیکی شاعری" بھی کہا جاتا ہے، نظامی کے ذریعہ ہی اپنے تکامل تک پہنچا۔لفظ "غنا" کا مطلب ایک خوبصورت گیت، سرود اور نغمہ ہے اور فارسی ادب میں ایسی نظم یا نثر کو کہا جاتا ہے جو شاعر یا ادیب کے ذاتی جذبات و احساسات کا اظہار کرتی ہے۔ "نظامی گنجوی" فارسی ادب اور شاعری میں کہانی کہنے کے ایک نئے انداز کے خالق ہیں۔ انہوں نے روز مرہ کی داستانوں کو فارسی شاعری ادب کے انداز میں متعارف کرایا۔

نظامی کے علمی آثار

نظامی کے سب سے اہم علمی  آثار میں سے ایک "پنچ گنج" یا "خمسہ" ہے۔ جب ہم نظامی  کی پنچ گنج کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد "مخزن الاسرار"، "خسرو اور شیرین"، "لیلیٰ اور مجنوں"، "ہفت پیکر" اور "اسکندر نامہ"ہے۔ بلاشبہ، "پنچ گنج" نظامی کے تمام آثار پر مبنی نہیں ہے،بلکہ نظامی کا دیوان قصائد اور غزلیات بھی اسکے علاوہ   ہیں  ۔ایرانی ادب کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ چھٹی صدی کے اس مشہور شاعر کی نئی اور خصوصی ترکیبیں تخلیق کرنے کے لیے صحیح الفاظ اور فقروں کے انتخاب میں مہارت، مثالی ہے۔ "لیلیٰ و مجنوں" اور "خسرو اور  شیریں" نظامی کی دو مثنویاں ہیں جنہوں نے ایرانی عوام کے دلوں میں اچھی طرح جگہ بنالی  ہے اوراب تک باقی ہیں۔  خسرو پرویز (ایران کے عظیم ساسانی بادشاہ) اور شیرین (آرمینی شہزادی) کے درمیان محبت کی دلچسپ کہانی کتاب خسرو اور شیرین میں سے ایرانی محفلوں میں بیان کی جانے والی ہر دل عزیز کہانیاں ہیں۔لیلیٰ اور مجنوں کے درمیان تابناک محبت اہل ایران کیلئے ایک مثال بن چکی  ہے۔ایرانی عاشق اور معشوق کے درمیان عشق کی انتہاء کو لیلیٰ اور مجنوں ہی قرار دیتے ہیں ۔ خمسہ نظامی کے دیگر تین آثار، شاید سائنسی اور فلسفیانہ اصطلاحات یا  عربی مرکبات کی پیچیدگی کی وجہ سے زیادہ مشہور نہیں ہیں ،البتہ یہ کہنے سے  نظامی کے آثار کی قدروقیمت ہر گز  کم نہیں ہوتی۔ "مخزن الاسرار" زندگی کے بہت سے اہم پہلووں بشمول ، خود شناسی، معرفت خدا اور اچھی اخلاقی صفات کا احاطہ کرتی ہے ۔ "ہفت پیکر "کو"بہرام نامہ" اور "ہفت گنبد" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ نظامی نے اپنی پیدائش سےقبل سے لے کر اپنی زندگی کے آخر تک  کہانیوں کی شکل میں مختلف سماجی اور ثقافتی عناصر کی تصویر کشی کی ہے۔ علم نجوم اور فلکیات سے لے کر اخلاقیات، ثقافت اور الٰہیات تک اس کتاب میں سب کچھ موجود ہے۔ "خمسہ نظامی" کی ایک اور مثنوی "اسکندر نامہ" دو حصوں پر مشتمل ہے: اقبال نامہ اور شرف نامہ، جس مثنوی میں 1500 بیت ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نظامی نے یہ تصنیف اپنے بڑھاپے اور جسمانی کمزوری کے دوران کی اور اس کی کمپوزنگ میں زیادہ تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ اسکندرنامے کی تحریر میں نظامی نے اپنی 70 سالہ زندگی کے علم، معلومات، مشاہدات اور تجربات اور آذربائیجان کی ترک ثقافت کا استعمال کیا ہے۔

خمسہ نظامی بطور نمونہ

بہت سے شاعروں نے نظامی گنجوی کے افسانہ نگاری کے انداز کو اپنے لیے نمونہ قرار دیا۔ مثال کے طور پر، امیر خسرو دہلوی نے ، نظامی کی "مطلع الانوار"، خسرو اور شیریں، لیلیٰ و مجنوں، آئینہ سکندری اور ہشت بہشت، جیسی مثنویوں کی پیروی کرتے ہوئے اشعار کہے۔ خواجو کرمانی نے ہمائی اور ہمایوں، گل اور نوروز، روضۃ الانوار، کمال نامہ اور گوہر نامہ کی تخلیق کی، جو پانچ مثنویاں ملکر خواجو کی" خمسہ" کو تشکیل دیتی ہیں۔ عبدالرحمٰن جامی نے سات مثنویوں کا ایک مجموعہ "ہفت اورنگ" لکھا جو نظامی کے سلسلۃ الذہب، سلامان و ابسال، تحفہ الاحرار، سبحہ الابرار، یوسف اور زلیخہ، لیلیٰ او رمجنوں اور خرد نامہ کے  زیر اثر ہیں۔ "خمسہ نظامی" کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے اور ایران کے گزشتہ دور کے مکتبوں میں  بھی نظامی کے یہ آثار پڑھائے جاتے رہے اور جدید سکولوں میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔

فارسی زبان

نظامی کے تمام اشعار فارسی میں ہیں اور نظامی کہتے ہیں:  تمام دنیا جسم کی مانند ہے اور ایران اسکے دل ک مانند ہے۔اور ایسا کہنے والے کیلئے کوئی شرم و حیا کی بات نہیں ہے۔ نظامی کا انتقال 602 اور 612 کے درمیان گنجہ نامی علاقے میں ہی ہوا۔ 12 مارچ، (21 اسفند ماہ شمسی) ایرانی قومی کیلنڈر میں "یوم حکیم نظامی" کے نام سے موسوم ہے۔

نام نظامی
ملک ایران
عرفیتنظامی گنجوی
تصنیف کا سالچھٹی صدی
پانچ گنج یا خمسہ، بشمول مخزن الاسرار، خسرواو ر شیرین، لیلیٰ و مجنوں، ہفت پیکر اور اسکندر نامہ

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: