فردوسی

فردوسی

فردوسی

فردوسی کا نام حماسہ سرائی سے جڑا ہوا ہے۔ جبکہ حماسہ کے آسان معانی ہمت، بہادری اور شجاعت ہیں۔کہانیوں اور شاعری میں یہ شجاع ہیرو جسمانی اور روحانی طاقت میں بے نظیر ہے۔ اس ہیرو کی صلاحیتیں ایک عام آدمی سے کہیں زیادہ ہیں۔ حکیم ابوالقاسم فردوسی ایران کاسب سے بڑا قومی، تاریخی اور افسانوی شاعر ہے۔

فردوسی، شاہنامہ سے پہلے

حکیم ابوالقاسم فردوسی سنہ 329 ہجری قمری بمطابق 940 عیسوی صوبہ خراسان رضوی کے شہر طوس کے نواحی گاؤں "باژ" میں پیدا ہوئے۔ ایران کا یہ عظیم اور مشہور شاعرایک کسان کا بیٹا ہے۔آپ نے "باژ" گاؤں کے اسکول میں پڑھنا لکھنا سیکھا اور اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے طوس شہر کے ایک سکول میں داخلہ لیا۔ اس سکول میں فردوسی کو "ابو منصور محمد بن احمد" جو دقیقی طوسی کے نام سے مشہور تھے،ملاقات و آشنائی ہوئی۔دقیقی ایرانی فارسی ادب کی تاریخ کے پہلے حماسہ سرا شعراء اور مصنفین میں سے ایک ہیں۔ دقیقی تیس سال تک زندہ رہے اور اس دوران انہوں نے ایران کی قومی کہانیوں کو "شاہنامہ ابو منصوری" سے شعری قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی۔دقیقی نے گستاسب کی کہانی اور زردشتوں کے ظہور کے بارےایک ہزار اشعار کہے، لیکن اپنے غلام کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ فردوسی نے دقیقی طوسی کے نامکمل کام کا علم ہوتے ہی اسے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا، شاہنامے کا ماخذ ابو منصوری کی نثری کتاب شاہ نامہ ہے اور فردوسی نے شاہنامے میں ایک ہزار دقیقی طوسی کے اشعار بھی شامل کیے ہیں۔

فردوسی کا شاہنامہ، ایرانی عوام کا وقار

فردوسی کو قدیم کہانیوں میں دلچسپی تھی اور آپ کی زندگی میں سامانیوں نے ایران پر حکومت کی۔ سامانی حکومت کے دوران، "دری فارسی" زبان نے بہت ترقی کی۔ اگرچہ سامانیوں نے عربی کو سرکاری اور دفتری زبان قرار دیا ہوا تھا، لیکن انہوں نے فارسی شعراء کو اپنی مقامی زبان میں شاعری کی اجازت دے رکھی تھی۔ فردوسی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہنامہ کو شعری قالب میں تصنیف کرکے ایرانی عوام کے قومی ، انسانی اور عالمی رویے اورنظریہ کو منطر عام پر لانے کی کوشش کی۔ شاہنامے کے حوالے سے فردوسی کی ایرانیوں کے لیے سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایرانی عوام کی جڑوں، سنہری ماضی اور عزت و تکریم کو قلمبند اور برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ شاہنامے کا ذکر ایرانی عوام کے وقار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ شاہنامے میں رستم، سہراب، کاوہ ،آہنگر اور سیمرغ مثبت کردار ہیں، جبکہ ضحاک اور کیکاووس منفی کردار ہیں۔ شاہنامے کا مرکزی ہیرو رستم ہے۔ رستم ایک ایرانی کردار کے طور پر بہت طاقتور ہے جو دیو اور پریوں سے لڑتا ہے اور انہیں شکست دیتا ہے۔ رستم اور اسفند یار کی کہانی ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے، اور لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی ہے۔ شاہنامہ، افسانوی، بہادری اور تاریخی تین پہلووں پر مشتمل ، کتاب ہے۔ فردوسی اور عظیم شاہنامے جیسی کتاب کی وجہ سے، ایرانی ادب اور شاعری کے عظیم لوگ سامانی دور، یعنی چوتھی قمری صدی (دسویں اور گیارویں صدی عیسوی) کو ایران میں حماسہ سرائی کا سب سے اہم دور مانتے ہیں۔

فردوسی کی مضبوط بنیاد

حکیم ابوالقاسم فردوسی اپنے آبائی شہر میں 73 سال زندگی گزارنے کے بعد 402 ہجری قمری بمطابق 1032 عیسوی، وفات پا گئے۔ایران کے شمسی قومی کیلنڈر کے مطابق 25 اردیبہشت‌ کو "یوم فردوسی" اور "فارسی زبان و آداب کے تحفظ" کا دن منایا جاتا ہے۔ ایرانی قوم حکیم ابوالقاسم فردوسی کی شخصیت اور نام کو زندہ رکھنے کو اپنی قومی اور ثقافتی شناخت کو زندہ رکھنے کے مترادف سمجھتی ہے۔ فردوسی نے شاہنامے کے ذریعے فارسی زبان کو حیات نو بخشی۔ فردوسی کا مقبرہ "باژ" گاؤں سے 28 کلومیٹر دور ہے۔اپنی عظمت اور مضبوطی کی وجہ سے، اس عمارت کی ہر ایک اینٹ دیکھنے والوں کو فردوسی کے شاہنامے کی یاد دلاتی ہے۔ فارسی زبان اور ایرانی قوم فردوسی کے مرہون منت ہیں، جیسا کہ فردوسی نے خود کہا:

 میں نے ان تیس سالوں میں بہت سی تکلیفیں برداشت کہیں اور میں نے عجم کو اسی فارسی سے زندہ کیا ہے۔

نام فردوسی
ملک ایران
عرفیتفردوسی
تصنیف کا سالچوتھی صدی
شاہنامہ

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: