سہروردی اور تابش بارقہ الهی

سہروردی اور تابش بارقہ الهی

سہروردی اور تابش بارقہ الهی

لفظ اشراق کا مطلب روشنی ہے، لیکن فلاسفہ کی اصطلاح میں اشراق کا مطلب دریافت، معنوی  کشف یا عقلی روشنیوں کا ظاہر ہونا اور انسانی روح پر ان کی فیوض و برکات کا ہونا  ہے۔ "فلسفہ اشراق" سے مراد وہ فلسفہ ہے جس کی بنیاد شیخ الاشراق شہاب الدین سہروردی نے رکھی۔ شیخ الاشراق کے مطابق، حقیقی فلسفی وہ ہے جو فلسفیانہ بنیادوں اور رسمی منطق پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی روح اور اپنے باطن کی تطہیر کے ذریعے روحانی کمال کے اعلیٰ درجات تک پہنچ جائے اور انوار الٰہی کو ظاہر کرنے کا ہنر حاصل کرلے۔ سہروردی اپنی کتابوں میں خود اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کا فلسفہ ان لوگوں کے لیے ہے جو بحث و گفتگو کے ساتھ ساتھ ما ورائے دنیا کی حقیقتوں کو سمجھنے کی بھی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور آپ اپنے فلسفے کو سمجھنے کیلئے قارئین کے دل پر نور الٰہی کے چمکنے کو شرط سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: جو لوگ صرف فلسفیانہ بحث و گفتگو کے متلاشی ہیں اور حقیقت مظہر الٰہی کے متلاشی نہیں ہیں تو بہتر ہے کہ و ہ "فلسفہ مشاء" یعنی  ارسطو یا ابن سینا  کے مکتبہ فکر  کی طرف رجوع کریں۔ شیخ الاشراق کے مطابق اشراقیوں کا کام نوری حوادث کے سوا کچھ نہیں ہے۔  ''فلسفہ مشائی'' اور ''فلسفہ اشراقی'' میں تقسیم، فلسفہ اسلامی کی تقسیموں میں سے ایک ہے۔ اسلامی فلسفہ کی تاریخ کے لحاظ سے ایک طویل تاریخ ہے۔ در حقیقت ارسطو کے فلسفیانہ مکتبہ فکر کو عام طور پر "مشاء" کہا جاتا ہے اور افلاطون کے فلسفیانہ مکتبہ فکر کو "اشراقی" کہا جاتا ہے۔ اسلامی فلسفیوں میں کندی، فارابی، ابن سینا، خواجہ نصیر طوسی اور ابن رشد اندلسی کو "مشائی فلسفہ" کے بزرگان طور پر شمار کیاجاتا ہے، جبکہ  عالم اسلام میں "فلسفہ مشاء"ابن سینا کے نام سے جانا اور پڑھایا جاتا ہے۔

"اشراق" اور "مشاء" مکتبہ فکر میں فرق

جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ شیخ الاشراق کے بعد جو نکات مشہور ہوئے ان میں سے ایک نکتہ نظر  یہ ہے کہ افلاطون اشراقی مکتبہ فکر کا بانی ہے۔ استاد شہید مطہری کا خیال ہے کہ یہ حقیقت کہ "افلاطون، شیخ الاشراق کی طرح روحانی ترقی کے حق میں تھا اور جدوجہد، کفایت شعاری اور قلبی مشاہدے کو حکمت اور فلسفے کیلئے اہم سمجھتا تھا"، انتہائی قابل بات اعتراض ہے۔ آپ کے نقطہ نظر سے یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ افلاطون اپنے زمانے میں یا اپنے قریب کے زمانے میں بھی ایک "اشراقی" کے طور معنوی اور باطنی نور کے معتقد  شخص کے طور پر جانا جاتا تھا، اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ لفظ "مشاء" کا اطلاق صرف ارسطو اور اس کے پیروکاروں پر ہوتا تھا۔ جو بات حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ شیخ الاشراق نے عالم اسلام کے صوفیاء ارو عرفاء سے متاثر ہو کر اپنا فلسفیانہ طریقہ اختیار کیا اور یقیناً اس میں اپنے نظریات کو قابل قبول انداز میں شامل کر کے ایک نیا فلسفہ پیش کیا۔ "مشاء" مکتبہ فکر کے برعکس، "اشراقی" مکتبہ فکر میں شیخ الاشراق، جو مکتبہ فکر کے بانی ہیں ، کے علاوہ کوئی اور عظیم فلسفی نہیں ہے۔ نیز اشراقی رجحان رکھنے والے چند ہی فلسفیوں نے ان کی کتابوں کی شرح لکھی ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملا صدرا، جو اسلامی دنیا کے سب سے بڑے اور اہم فلسفیانہ مکتبہ فکر کے بانی ہیں، اپنے  فلسفیانہ نظریات میں اشراقی فلسفے سے بے حد متاثر ہیں۔ قطب الدین شیرازی اور شمس الدین شہرزوری ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے شیخ الاشراق کی کتابوں پر اپنی شروحات لکھی ہیں اور ان کی شروحات اشراقی فلسفہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔

سہروردی کی پیدائش اور وفات

"المؤید بالملکوت" اور "شیخ الاشراق" کے لقب سے جانے والے سہروردی،  1154ء (549ھ قمری) میں زنجان کے علاقے سہرورد میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اصول فقہ شیخ مجد الدین جیلی اور استاد فخرالدین محمد رازی سے پڑھی اور حکمت میں مہارت حاصل کی۔ آپ نے عراق اور شام کیلئے کئی سال سفر کیے اور تعلیم حاصل کی اور غیر مروجہ علوم میں بھی مہارت حاصل کی۔ پھر اصفہان گئے اور ظہیر الدین فارسی سے علم منطق کی تعلیم حاصل کی۔ اسی شہر میں انہیں پہلی بار ابن سینا کے خیالات کا علم ہوا اور قاری طاہر الدین سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ترکیہ سے ماردین کے سفر کے دوران، آپ نے مشہور صوفی اور حکیم فخر الدین مردینی کی بھی زیارت کی۔ اسی طرح آپ نے حلب کا بھی سفر کیا، جہاں آپ کی ملاقات صلاح الدین ایوبی سے ہوئی۔ صلاح الدین نے آپ کو اپنے دربار میں رہنے کیلئے کہا۔ سہروردی نے ان کی پیشکش قبول کر لی اور حلب کے دربار میں مقیم ہو گئے، مگر آپ کو اہل علم دشمنوں کی وجہ سے صلاح الدین ایوبی کے حکم پر 1191 عیسوی (587 ہجری قمری) میں قید کر دیا گیا اور 38 سال کی عمر میں قتل کر دیے گئے۔ آپ کو شام کے شہر حلب میں سپرد خاک کیا گیا۔ تاریخی ذرائع کے مطابق آپ ملک ظاہر ایوبی کی جیل میں بھوک اور پیاس سے فوت ہوئے اور "شیخ الشہید" کے نام سے شہرت پائی۔ محمود قطب الدین شیرازی، حسین نصر، غلام حسین ابراہیمی دینانی، حسن سید عرب، تقی پورنامداریان اور محمد کریمی قابل ذکر ہیں، جنہوں نے شیخ الاشراق کی زندگی اور علمی آثار پر تحقیق کی ہے۔ ہر سال 30جولائی، ایرانی قومی کلینڈر کے مطابق 8 مرداد شمسی کو یوم سہروردی"شیخ الاشراق" کی یاد کے طور پر منایا جاتا ہے۔

نام سہروردی اور تابش بارقہ الهی
ملک ایران
عرفیتشیخ اشراق
تصنیف کا سال549 ھ قمری
الحکمة الاشراقیہ

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: