۲۸ اردیبھشت "یوم خیام"

  • تاریخ شروع : May 18 2022
  • تاریخ اختتام : May 18 2022
۲۸  اردیبھشت

 
ایران میں ہر سال ۱۸ مئی  (۲۸  اردیبھشت) کے دن معروف عالم، فلسفی ، فارسی کے مشہور شاعر، ریاضی داں اور ماہر جغرافیہ وفلکیات ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری کی سالگرہ کو قومی "یوم خیام" کے طور پر منایا جاتا ہے. اس دن روایتی طور پر نیشاپور میں ان کے مزار کے ساتھ ساتھ ملک اور دنیا بھر میں بہت سے دوسرے مقامات پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں.
 
 
عمر خیام علم ہیت اور علم ریاضی کے بہت بڑے فاضل تھے۔ ان علوم کے علاوہ شعرو سخن میں بھی ان کا پایا بہت بلند ہے جبکہ ان کے علم وفضل کا اعتراف اہل ایران سے بڑھ کر اہل یورپ نے کیا.مختلف علوم میں ماہر ہونے کے باوجود عمر خیام کی شہرت کا سرمایہ ان کی فارسی رباعیات ہیں. اس بلند پایہ شاعر کا علمی دنیا سے تعارف کرانے میں اہل یورپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. سب سے پہلے روسی پروفیسر ولنتین ڑو کو فسکی نے رباعیات عمر خیام کا ترجمہ کیا۔ پھر فٹنر جیرالڈ نے عمر خیام کی بعض رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اور بعض اہم مضمون میں رباعیات کا مفہوم پیش کرکے کچھ ایسے انداز میں اہل یورپ کو عمر خیام سے روشناس کرایا کہ انہیں زندہ جاوید بنادیا.
 
 
ان کی رباعیوں کا ترجمہ شاید سب سے زیادہ ہوا ہے اور دنیا کی تقریباً تمام تر بڑی زبانوں میں ہوا ہے۔ اردو میں تو بہت سے لوگوں نے ان کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے. عمر خیام کی شاعری کا حاصل صرف ان کی فارسی رباعیات ہیں۔
 
 
رباعیوں کی زبان بڑی سادی، سہل اور رواں ہے، لیکن ان میں فلسفیانہ رموز ہیں جو اس کے ذاتی تاثرات کی آئینہ دار ہیں۔ سب سے پہلے جو چیز عمر خیام کی رباعیوں میں ہمیں نمایاں نظر آتی ہے وہ انسانی زندگی کے آغاز وانجام پر غور وخوص ہے۔ اگر چہ انسانی زندگی مختصر ہے اور اس پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا، لیکن دریافت اور جستجو کی ایک امنگ ہے جو انسان کو قانع نہیں رہنے دیتی اور اس کی بدولت وہ اپنے آغاز و انجام کے متعلق سوچتا رہتا ہے اس کے کانوں میں رہ رہ کر یہ صدا گونجتی ہے.
 
 
 
 
 عمر خیام کے اشعار پر انگریزی کے معروف شاعر یوجین او نیل، اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ وغیرہ نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیو منرو نے عمر خیام سے متاثر ہوکر اپنا قلمی نام ہی 'ساقي رکھ لیا۔
 
 
 
عمرخیام کی ایک رباعی، جس کی جھلک آپ کو بہت سے اردو اشعار میں نظر آئے گی.
 
آورد بہ اضطرابم اول بہ وجود
 
جز حیرتم از حیات، چیزی نفزود
 
رفتیم، بہ اکراہ، ندانیم چہ بود
 
زین آمدن و بودن ورفتن مقصود
 
(ترجمه: پہلے میں اضطراب کے ساتھ پیدا ہوا اور پوری زندگی میں حیرت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ بہ حالت مجبوری یہاں سے لے جائے گئے اور یہ بھی معلوم نہ سکا کہ آنے، رہنے اور جانے کا مقصد کیا تھا.)
 
 
 

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: