زکریای رازی

زکریای رازی

زکریای رازی

محمد بن زکریا رازی کا شمار اسلامی دنیا کے مشہور کیمیادانوں اور ڈاکٹروں میں ہوتا ہے، جو 865ء  (251ھ قمری) میں  ایران کے شہر "رے" میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 925ء  (313ھ قمری) میں وفات پائی۔ اہل یورپ انہیں "رازس"، "رازی" اور "الرازی" کے ناموں سے جانتے ہیں۔  رازی ایک ایرانی طبیب، فلسفی اور مشہور کیمیا دان ہے جو الکحل(Alcohol)، سلفر جوہر(Essence of Sulfur) اور مٹی کے تیل (Kerosene Oil)  کی دریافت کے لیے مشہور ہے۔ وہ جدید کیمسٹری کے بانی اور ماہر ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جن کے نظریات جدید طب (New medicine)    میں استعمال ہوتے ہیں۔ ایران کے سرکاری کیلنڈر میں شمسی سال کے ماہ شہریور کی تاریخ کو ہر سال یوم "زکریا رازی" اور یوم "فارماسسٹ" منایا جاتا ہے۔

رازی کی طبابت (ڈاکٹری)

اسلامی مورخین کی کتابوں میں درج ہے کہ رازی نے بغداد کے ہسپتال میں طب (میڈیکل)کی تعلیم حاصل کی۔ پہلے وہ  سنار کا کام کرتے تھے ، پھر آپ نے ایلکسیر انڈسٹری (Elixir Industry)میں کام کیا۔ چالیس سال کی عمر میں کیمیسٹری چھوڑ کر بغداد چلے گئے اور وہاں طب(میڈیکل) کی تعلیم حاصل کی۔کچھ عرصے کے لیے آپ نے خلیفہ عباسی کے دور میں بغداد میں ہیومرل(Humeral) ہسپتال کی انتظامیہ اور ڈائریکٹر شپ کا چارج سنبھالا۔عرصہ دراز سے، ڈاکٹرز اور محققین میڈیکل سائنس کے میدان میں آپ کی لکھی ہوئی کتابوں اور مقالوں سے بہت فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ابن سینا آپ کو ایک اعلیٰ درجے کا طبیب(ڈاکٹر) مانتے ہیں اور اپنی کتاب (قانون) کے لکھنے میں آپ کی کتب کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ رازی وہ پہلا شخص ہے جس نے چیچک(Smallpox) اور خسرہ(Measles) میں فرق  دریافت کیا ہے۔ چونکہ آپ کے زمانے میں انسانی جسم کے اعضاء کی تشریح(بیان) کا رواج نہیں تھا اور اس کام کو ناگوار اور مذہبی تعلیمات کے خلاف سمجھا جاتا تھا، مگر اس کے باوجود رازی نے اپنی تصانیف، من جملہ "الکنکاش المنصوری" میں ہڈیوں(Bones)، پٹھوں(Muscles)، دماغ(Brain)، آنکھ(Eye)، کان(Ear)، پھیپھڑے(Lungs)، دل(Heart)، معدہ(Stomach)، گالبلیڈر(Gallbladder) وغیرہ کے بارے میں بیان کیا ہے۔ آپ کے علمی آثار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سرجری(Surgery) کے بھی ماہر تھے۔ رازی، اس دور کے بہت سے ڈاکٹروں کے برعکس، جو بادشاہوں اور امرا کے علاج  ہی میں زیادہ دلچسبی رکھتے تھے، عام لوگوں کے علاج معالجہ میں زیادہ دلچسبی رکھتے تھے۔آپ کی نظر میں ڈاکٹرکیلئے کچھ اہم خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ اسی لئے آپ نے خود کو ڈاکٹر کہلوانے والے کئی ناخواندہ لوگوں کے بارے میں کچھ انکشافات کیے، جسکی کی وجہ سے آپ کے مخالفین بھی  موجود تھے۔

رازی ان لوگوں میں سر فہرست ہیں جو صحت اور علاج میں خوراک کے کردار کو اہم قرار دیتے ہیں۔ آپ نے خوراک کے بارے میں ایک مفصل کتاب لکھی ہے جس کا نام  "منافع‌ الاغذیہ و مضارها"] خوراک کے فائدے اور نقصانات[ ہے، جو کھانے کی حفظان صحت پر ایک مکمل کورس سمجھا جاتا ہے، اس کتاب میں گندم ، دالوں  اور ہر قسم کے پانی، شراب، الکحل ، مشروبات، تازہ اور خشک گوشت، مچھلی اور غذاؤں کے  خواص اور نقصانات بتائے گئے ہیں۔ اس کتاب کا ایک باب کھانے کے ہضم ہونے، ورزش اور خوراک سے پرہیز اور کھانے کی مسمومیت (Poisoning) بارے بھی مختص ہے۔

علم کیمسٹری اور فلسفہ

کیمسٹری میں رازی کا سب سے بڑا علمی اثر آپ کا مادوں کی درجہ بندی ہے۔ رازی وہ پہلا شخص ہے جس نے اجسام کو تین گروہوں میں تقسیم کیا: جمادات (Inanimate objects)، نباتات (Plants) اور حیوانات (Animals)۔ اگر سائنس کے اگلے مراحل (کیمیسٹری کے بعد مراحل) کے نقطہ نظر سے اس پر غور کیا جائے تو اسے کیمیسٹری کے بانیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔" الکحل " اور "سلفورک ایسڈ" جیسی دریافتیں بھی آپ ہی سے منسوب ہیں۔ آپ علم منطق، علم جیومیٹری اور دیگر فکری علوم میں بھی مشہور تھے، اور انہیں ایرانی اور اسلامی ثقافت میں عقلیت پسندی اور تجربیات کی سب سے نمایاں شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ آپ اپنے فلسفے میں سقراط اور افلاطون کی طرف مائل تھے اور آپ کے فلسفے میں ہندوستانی اور مانیکی افکار کے اثرات بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہرحال، آپ کی اپنی رائے رکھتے تھے اور آپ نے کبھی بھی مشہور شخصیات کی رائے کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔ بلکہ  ہمیشہ آپ نے پہلے اپنے پیشرو دانشورں کی معلومات کا گہرائی سے مشاہدہ اور تجربہ کیا ، پھر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ آپ کی ںظر میں دنیا برائی اور مصائب کی جگہ ہے اور نجات کا واحد راستہ عقل اور فلسفہ ہے۔ رازی کے اخلاقی فلسفے میں "لذت" اور "درد" کا معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کے نقطہ نظر سے "لذت" کا کوئی مستقل وجود نہیں، بلکہ مصائب سے نجات ہے۔ اور "مصائب" ایک موثر مادے کے ذریعے فطری حالت سے نکل جانے کا نام ہے۔ نتیجتاً اگر کوئی چیز اس کے خلاف کام کرتی ہے اور اسے "مصائب" سے نجات دلانے اور معمول کی حالت میں لانے کا سبب بنتی ہے تو اس سے "لذت" پیدا ہوتی ہے۔ آپ قائل تھے کہ ایک نامور طبیب کو فلسفی بھی ہونا چاہیے۔

رازی کے علمی آثار اورشاگرد

"الحاوی"، "الکناش‌ المنصوری"، "المرشد"، "من لایحضره الطبیب"، "الحدری و الحصہ"، "دفع مضار التغذیہ" اور  "الابدال" جیسی کتابیں رازی کی اہم ترین تصانیف شمار ہوتی ہیں۔ ماضی میں طب اور فلسفہ کے مورخین نے رازی کے تین اساتذہ  کا ذکر کیا ہے: ابن ربان طبری، جو طب میں رازی کے استاد تھے، ابو زید بلخی، جنہوں نے انہیں فلسفہ پڑھایا، اور ابو العباس محمد بن نیشاپوری، جو مادیت (مادیت) یا گیٹولوجی(Gitaology) میں آپ کے استاد تھے۔ رازی نے اپنی زندگی کے دوران بہت سے طلباء کی پرورش کی جن میں یحییٰ بن عدی، ابو القاسم مقانعی، ابن قارن رازی، ابو غانم طبیب، یوسف بن یعقوب اور محمد بن یونس شامل ہیں۔ رازی اپنی زندگی کے آخری ایام میں نابینا ہو گئے اور آخر کار ایران کے شہر "رے" میں وفات پا گئے۔ آپ کی تصانیف میں 271 کتابیں، رسائل اور مقالات درج ہیں۔ 27 اگست، ایران کے قومی کیلنڈر کے مطابق 5 شہریور شمسی کو ذکریا رازی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے،  اور ہر سال اس دن ایران میں میڈیکل کے شعبہ میں خدمات کرنے والے محققین کے اعزاز میں"رازی میڈیکل سائنس ریسرچ فیسٹیول" کا انعقاد کیا جاتا ہے.

نام زکریای رازی
ملک ایران
تصنیف کا سالتیسری صدی
الحاوی الکناش المنصوری المرشد من لایحضره الطبیب کتاب الجدری و الحصبہ دفع مضار الاغذیہ الابدال

---- [مزید]

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: