ابوریحان بیرونی
ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کو عصر حاضر کے بہت سے علوم پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے ایران کی تاریخ کے عظیم سائنسدانوں میں سے ایک کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 973 عیسوی (13 شہریور 352 شمسی) کو صوبہ خوارزم کے علاقے کاٹھ کے "بیرون" گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی انہوں نے اپنی ذہانت اور اعلیٰ ہنر کی وجہ سے فارسی، عربی، صرف و نحو، حکمت اور ریاضی، علم و حکمت اور فلکیات جیسے علوم کو مقدماتی اور ایڈوانس کورسز کے طور پر سیکھا ۔ آپ نے شیخ مصطفی آرگنجی، عبدالصمد بن حکیم اور ابو نصر جیسے ماہر ریاضی اور فلکیات اساتذہ سے کسب فیض کیا۔اپنی جوانی میں ہی اس ممتاز ماہر فلکیات نے اپنی سائنسی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر شروع کیں اور اپنے علم میں اضافے کے لیے "خراسان"، "ری"، "تبرستان" اور "جرجان" (موجودہ مازندران کے قریب علاقے میں) گئے اور جرجان میں ہی قیام کے دوران اس شہر کے امیر (سردار) کے پاس گئے اور تاریخ اور جغرافیہ کے میدان میں "آثار الباقیہ عن القرون الخالیہ" جیسی کتاب جو "آثار الباقیہ" کے نام سے مشہور ہے، لکھی۔ ا س کے بعد آپ خوارزم واپس آئے اور چوتھی شمسی صدی کے آخر میں محمود غزنوی کے اس علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد اسی کی تجویز پر غزنہ چلے گئے اور پھر مختلف شہروں کا دورہ کرکے اپنی علمی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
ابو ریحان بیرونی کے علمی آثار
ابو ریحان بیرونی محمود غزنوی کی عزت کرتا تھا اور اس نے اپنی زندگی کے بہترین سال اسی سلطان کے دربار میں گزارے اور اسی کے نام پر قانون مسعودی نامی کتاب بھی لکھی۔ بیرونی سریانی، سنسکرت، فارسی، عبرانی اور عربی زبانوں سے واقف تھے۔اگرچہ بیرونی نے اپنے زمانے کے بیشتر علوم میں دسترس حاصل کی، لیکن وہ بنیادی طور پر ریاضی سے وابستہ تھے اور اپنا زیادہ تر وقت ریاضی کی تحقیق پر ہی صرف کرتے تھے۔انہوں نے طب، ہیت، تاریخ اور جغرافیہ کے مختلف علوم میں 113 سے زائد کتابیں لکھیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں: ہندوستان کے بارے ہماری تحقیق(ہندوستان اور ہندو رسم و رواج کے بارے اپنے سفر کی رپورٹ)، قانون مسعودی (اسلامی فلکیات اور کروی مثلثیات، زمین اور اس کے طول و عرض اور سورج، چاند اور سیارے)، "التفہیم لاویل صںاعت التنجیم" (فلکیات کے بارے میں، جسے کئی سالوں سے ریاضی اور فلکیات کے لیے ایک حوالہ کتاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے)، "الجماہر فی معارف الجواہر" (مختلف معدنیات اور جواہرات کا تعارف)، "اصیدنا فی الطب" (جسمیں کیمیکلز اور ان کے خواص اور ان کی تیاری کا طریقہ بتایا) اور کئی دوسری کتب. ابو ریحان بیرونی نے مختلف علوم میں مختلف اختراعات اور نظریات پیش کیے ہیں۔ فلکیات میں، زمین کی پوزیشنی حرکت کا نظریہ اور مختلف مقامات پر قبلہ کی سمت کا تعین، جغرافیہ میں، شہروں کے عرض البلد اور طول البلد کا حساب لگانا اور نقشہ بنانا، کیمیا اور معدنیات میں عناصر کے مخصوص وزن کا تعین کرنا، خاص طور پر قیمتی دھاتوں کاوزن کرنا اور دوا اور فارماسولوجی میں پہلی بار عربی اور فارسی میں دواؤں کی اصطلاحات اور ناموں کا ترجمہ کرنا۔ بیرونی نے زمین کی سطح کی تہہ کیسے بنی اور سمندر خشکی میں کیسے تبدیل ہوئے اور دنیا کی تخلیق کیسے ہوئی، جیسے موضوعات پر بھی تبصرہ کیا ہے۔
تعصبات سے دوری
جو کچھ یورپ والوں نے سولہویں صدی میں علمی و ادبی میدان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کی بنیاد پر کیا وہی ابو ریحان بیرونی نے دسویں صدی میں کیا تھا۔ یعنی قدیم ورثے کو، خواہ وہ سائنسی علوم ہو پر مبنی ہو یا آرٹ پر مبنی ہو ، اسے پہلی بار شک و تردید کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اسے تنقید کے شکنجے میں اسطرح ڈالا گیا کہ جب تک کہ وہ ٹھوس وجوہات کے ساتھ ثابت نہ ہو جائے، اسے قبول نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس وقت تک کوئی چیز قبول نہیں کی جب تک کہ وہ ذاتی طور پر گہری تحقیق نہ کر لیں۔ دوسری جانب، بیرونی کی علمی شخصیت کا سب سے اہم پہلو سچائی کی تلاش اور تعصب سے بچنا اور مقبول آراء پر آنکھیں بند کر کے پیروی کرنا ہے۔ بیرونی کے خیال میں تعصب،تعصب رکھنے والے کی آنکھوں کو اندھا کر دیتا ہے اور سننے والے کے کانوں کو بہرا کر دیتا ہے اور انسان کو وہ کام کرنے پر اکساتا ہے جس کی تائید حکمت اور علم سے نہیں ہوتی۔ انہوں نے بارہا سابقہ سائنسدانوں خصوصاً ارسطو کے نظریات پر تنقید کی۔ معروضی نقطہ نظر سے دلچسپی کے طور پر وہ سچائی کو صرف الفاظ اور تحریروں میں نہیں ڈھونڈتے تھے، بلکہ مضامین کو جانچنے اور قدرتی مظاہر کا براہ راست مشاہدہ کرنے میں بہت ہی دلچسپی رکھتے تھے۔ بیرونی نے سائنسز کو مذہب اور مذہبی دنیا کے زاویے سے دیکھا۔ان کا خیال تھا کہ مختلف علوم جیسے جغرافیہ اور قدرتی علوم میں تحقیق جائز ہے، کیونکہ یہ اسلامی معاشرے کی دینی اور روحانی زندگی کے لیے اہم ہے اور اس مقصد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ جن لوگوں نے ابو ریحان بیرونی کی زندگی اور کارناموں کا مطالعہ کیا ہے، ان میں جلال الدین ہمائی، منوچہر صدوقی سھا، اکبر داناسرشت اور ابوالقاسم قربانی کا نام قابل ذکر ہے۔
ابو ریحان بیرونی کی وفات
ابو ریحان بیرونی کا انتقال1048 عیسوی (22 آذر 427 ہجری شمسی) کو 75 سال کی عمر میں غزنین (موجودہ مشرقی افغانستان) میں ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔ 4 ستمبر( ایران کے قومی کیلنڈر کے مطابق 13 شہریور شمسی) یوم"ابوریحان بیرونی" کے نام سے موسوم ہے۔
نام | ابوریحان بیرونی |
ملک | ایران |
تصنیف کا سال | 352 شمسی |
تحقیق ماللهند قانون مسعودی التفہیم لاوایل صناعۃ التنجیم الصیدنۃ فی الطب آثار الباقیۃ عن القرون الخالیۃ |