چاپ مقالہ
ایرانی فلم سازوں کی جاندار کردار نگاری نے اسلامی جمہوریہ کے تحت اپنی دھاک بیٹھا کر دنیا کو اپنا گر ویدہ بنایا ہوا ہے
انقلاب کے بعد سے ایرانی سنیما کی بین الاقوامی کامیابی سے ظاہر ہو تا ہے کہ مغرب کے ناقدین نے ان فلموں اور ان کے سیاسی مواد کی غلط تشریح کی ہے
مغربی تنقید کے باوجود ایرانی سنیما ترقی کی راہ پر گامزن!
ایرانی فلم سازوں کی جاندار کردار نگاری نے اسلامی جمہوریہ کے تحت اپنی دھاک بیٹھا کر دنیا کو اپنا گر ویدہ بنایا ہوا ہے ۔
انقلاب کے بعد سے ایرانی سنیما کی بین الاقوامی کامیابی سے ظاہر ہو تا ہے کہ مغرب کے ناقدین نے ان فلموں اور ان کے سیاسی مواد کی غلط تشریح کی ہے ۔
محمد داؤد (پشاور)
انقلاب ایران کے بعد خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ایران سینما جس کا آغا ز سمینا سکوپ کی ایجاد کے تین سال بعد ہی ہو گیا تھا شاید مکمل طور پر ختم کردیا جائے مگر اس برعکس ایران حکام نے اس کو جاری رکھ کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ایران حکومت نے نہ صرف سنیما جاری رکھنے کی اجازت بلکہ سرکاری فنڈنگ کر کے اس کی گا ہے گاہے مدد بھی جس کے نتیجہ میں ایرانی سینماء اس دنیا کی آج صف اول میں کھڑا نظر آتا ہے ۔ ناقدین نے ایرانی سینما کوگزشتہ تین دہائیوں کے دوران اسلامی جمہوریہ کے زیرسایہ کام کر نے کے باوجود دنیا کے بہترین اور دلچسپ سنیما میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران ایرانی سنیما نے مختلف وجوہات کی بنا پر بے مثال تنقیدی اور علمی دونوں طرح کی توجہ مبذول کی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس دوران بین الاقوامی فلمی میلوں تقریباً ہر سال اپنے پروگراموں میں ایرانی فلم کو جگہ دی جاتی ہے۔ ایرانی فلموں کی سالانہ نمائشیں اب دنیا کے کئی بڑے شہروں میں ہوتی ہے۔ ناقدین نے ایران فلم فیسٹیول کے مندرجات کی منفرد ہونے پر تعریف کی ہے بلکہ ایرانی سینما جو اسلامی جمہوریہ کے تحت ابھرا ہے نے اپنی دھاک بیٹھا دی ہے۔ ایرانی سینما کے لیجنڈمرحوم‘‘ عباس کیاروستامی’’ نے انقلاب کے بعد کے سنیما کے بصری اسلوب کو بہترین شکل دی ہے۔ جسے ان کے ایک عہد کے ہم عصروں اور شاگردوں نے نقل کیا اور دوبارہ ترتیب دیا۔ کیاروستامی اور دیگر ایرانی آرٹ فلم ڈائریکٹرز کی دستاویزی طرز کی سنیماگرافی کو اکثر سادہ غیر اسکرپٹڈ بیانیے کے ساتھ کم سے کم آن اسکرین ایکشن فطری اداکاری کے ساتھ ہم آہنگ کیاگیا ہے۔ ساٹھ و ستر کی دہائی میں دنیا کی بھر کی فلم انڈسٹری پر فحاشی چھائی ہو ئی تھی جس کا اثر ایرانی سینما نے بھی قبول کیا تھا جس کو انقلاب کے بعد پاش پاش کر دیا گیا تو مغرب نے اس پر تنقید شروع کر دی جو اب بھی جارہی ہے۔حالانکہ ایرانی سینما کے جاندار کر دار نگاری نے دنیا کو اپنا گر ویدہ بنایا ہوا ہے۔ لہذا انقلاب کے بعد سے ایرانی سنیما کی بین الاقوامی کامیابی سے ظاہر ہو تا ہے کہ مغرب کے ناقدین نے ان فلموں اور ان کے سیاسی مواد کی غلط تشریح کی ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ بہت سے بین الاقوامی میلوں کے اندراجات کو ایران کے اندر سامعین اور یہاں تک کہ پیشہ ور ناقدین کی طرف سے بہت کم توجہ اور تعریف کی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ تعصب ہی ہوسکتا ہے۔ ایسے ناقدین کو سوچنا چاہیے کہ ایرانی سنیما اتنا کامیاب کیوں ہوا؟ انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ آؤٹ پٹ کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعتوں میں سے ایک ہے ۔ اب بھی ایرانیوں کے لیے ایک اہم تفریح ہے۔ اگر ہمیں بین الاقوامی سطح پر ایرانی فلم کا جائزہ لینا ہے تو ہمیں بین الاقوامی فلمی میلوں کی سیاسی معیشت کے بارے میں مزید مطالعے کی ضرورت ہے جس نے ایرانی سنیما کو قابل تعریف قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی شائقین کے لیے ایک ایسے ملک میں سنیما کی ایسی مضبوط ثقافت کو دیکھنے کے لئے تعصب سے بالاتر ہونے پڑے گا کیونکہ یہ ہمیشہ مغربی پریس کی نشانے پر رہتا ہے۔ اسلئے ہمیں گزشتہ چالیس سال میں ایرانی سنیما اور دیگر سمعی و بصری میڈیا پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ ٹیلی ویڑن بھی انقلاب کے بعد سے فلمیں دیکھنے کا پسندیدہ ذریعہ بن گیا ہے۔ ریاستی ٹیلی ویڑن پروگرامنگ کی ڈرامائی توسیع جو 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی اور 2000 کی دہائی میں اس میں تیزی آئی سے ایسا لگتا ہے کہ ٹیلی ویژن کی طرف ایک مقبول تبدیلی کے بارے میں سرکاری بیداری ظاہر ہوتی ہے اور حکومت فلم انڈسٹری کی سرپرستی کر رہی ہے۔
ایرانی سینماکا غیر نبدار جائزہ لیا جائے تو انقلاب سے پہلے اور بعد میں کوئی فرق نہیں جیسا کہ بہت سے لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ مقبول اور آرٹ سنیما کے درمیان 60 کی دہائی تک پیچھے جانا اب ممکن نہیں تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی سینماکی تکنیک میں بہتر آئی ہے اور ایران ماہرین نے اپنے تجربات کو استعمال کر تے ہوئے جدید ہالی ووٹی و بالی ووڈ کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لے ہے۔ اگر حالیہ سینما پر نظر ڈالی جائے تو وہ جدید جہاں جدید اسلامی ایران کا عکاس ہے اور اس کی فلموں میں معاشرے کے مسائل کو اجاگر کیا جارہا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں پر قید بند کی باتیں غلط ثابت ہور ہی ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایران میں خواتین فلم ساز و ادا کارائیں بھی اپنا لوہا منوارہی ہیں۔ آئیے ایران کی چند فلمیں جنہوں نے اپنی جاندار کہانیوں کے زریعے دنیا کو گرویدہ بنایا ہے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بہترین ایرانی فلمیں جو اس کی شاندار کہانی سنانے کا بہترین تعارف ہیں۔
فلم ‘‘باران’’
مجید مجیدی کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ 2001 کی ایرانی فلم، تعمیراتی سائٹ کے ایک کارکن کی کہانی بیان کرتی ہے جو ایک افغان مزدور سے محبت کرتا ہے، صرف یہ جاننے کے لیے کہ وہ روزی کمانے کے لیے مرد کے بھیس میں ایک عورت ہے۔ اس فلم نے مونٹریال ورلڈ فلم فیسٹیول میں بہترین فلم کا ایوارڈ، اور گیجن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بہترین اسکرین پلے اور بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ جیتا تھا۔
فلم‘‘ جنت کے بچے’’ دی چائلڈ آف ہیون
ماجد مجیدی کا ایک اور شاہکار، چلڈرن آف ہیون 1997 کا ایرانی خاندانی ڈرامہ ہے جو ایک بھائی اور بہن کے بارے میں ہے، جو کھوئے ہوئے جوتوں کی تلاش میں ہیں۔ اس کلاسک نے فجر فلم فیسٹیول، ورلڈ فلم فیسٹیول، نیوپورٹ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، وارسا انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، اور سنگاپور انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ایوارڈز جیتے ہیں۔
فلم ‘‘پرسیپولیس’’یہ خوبصورت 2007 کی اینیمیٹڈ بائیوگرافیکل ڈرامہ فلم مرجان ستراپی (جس نے فلم لکھی اور ہدایت کی) اسی نام کے سوانحی گرافک ناول پر مبنی ہے۔ ایرانی انقلاب کے پس منظر میں اس کی پرورش کی کہانی سناتی ہے۔ فلم نے 2007 کے کانز فلم فیسٹیول میں جیوری پرائز جیتا تھا اور اسے بہترین اینیمیٹڈ فیچر کے اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
فلم‘‘علیحدگی’’سپیرریشن
یہ 2011 کا ڈرامہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی بیان کرتا ہے جو الگ ہونا چاہتا ہے، لیکن طلاق سے انکار کر دیا جاتا ہے، ان کی بیٹی کس ڈپریشن سے گزرتی ہے، شوہر کے والد کی دیکھ بھال کے لیے رکھے گئے ایک نگہداشت کی حالت، جو الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہے۔ بے حد تہہ اور خوبصورتی سے کہا گیا اس نے 2012 میں بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کا آسکر جیتا، یہ ایوارڈ جیتنے والی پہلی ایرانی فلم بنی۔
فلم‘‘وائٹ بلون/ سفید غبارہ’’
1995 کی اس فلم کو جعفر پناہی کے بہترین کاموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ایک نوجوان لڑکی کی کہانی ہے جو عید کے لیے گولڈ فش چاہتی ہے، لیکن اسے اس کی ماں کی طرف سے دی گئی رقم پھنس جاتی ہے۔ نوٹ واپس حاصل کرنے کی جستجو میں، وہ ایک دکاندار، ایک فوجی، اور ایک افغان غبارہ بیچنے والے سے ملتی ہے۔ اس فلم نے پرکس ڈی لا کیمرہ ڈی آر اور 1995 کے کانز فلم فیسٹیول میں ایوارڈز جیتے تھے۔
فلم ‘‘آف سائیڈ’’
2006 کی یہ جعفر پناہی فلم ان لڑکیوں کی کہانی بیان کرتی ہے جو فٹبال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں گھس جاتی ہیں لیکن قانون کے مطابق ان کی جنس کی وجہ سے ان پر پابندی ہے۔ فلم کی کہانی ڈائریکٹر کی بیٹی سے متاثر تھی جس نے بہرحال ایک گیم میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔ آف سائیڈ نے 2006 میں برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں سلور بیئر جیتا تھا اور 2006 کے نیویارک اور ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیولز کے لیے آٖفیشل طور پر منتخب ہوئی۔
فلم ‘‘ایلے کے بارے میں’’
اصغر فرہادی کا یہ ڈرامہ تھرلر چھٹیوں کے دوران ترتیب دیا گیا ہے، جہاں ایک استاد غائب ہو جاتا ہے اور اپنے دوستوں کے گروپ کو جنونی انداز میں اس کی تلاش میں چھوڑ جاتا ہے۔ فلم نے ٹریبیکا فلم فیسٹیول میں بہترین بیانیہ فیچر 2009 میں جیوری ایوارڈ جیتا اور ایشیا پیسیفک فلم فیسٹیول 2009 میں اسپیشل جیوری ایوارڈ دیا گیا۔
فلم ‘‘سیلز مین’’فرشندہ
اصغر فرہادی کی شاندار کہانی سنانے کی ایک اور عمدہ مثال، سیلز مین ایک شادی شدہ جوڑے کی کہانی سناتی ہے جو ڈرامہ پیش کرتا ہے، اسٹیج پر سیلز مین کی موت۔ ڈرامے میں بیانیہ کو چھوڑ کر، بیوی پر حملہ کیا جاتا ہے اور شوہر حملہ آور کو تلاش کرنے کے لیے نکلا ہے چونکہ وہ قانونی کارروائی کرنے سے انکار کرتی ہے اور پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا ہے۔ فلم نے بہترین غیر ملکی زبان کی فلم کا اکیڈمی ایوارڈ جیتا، ایک تقریب میں اصغر نے امریکی ایگزیکٹو آرڈر 13769 کی مخالفت میں شرکت نہیں کی۔ اس نے 2016 کے کانز فلم فیسٹیول میں فرہادی کے لیے بہترین اسکرین پلے اور حسینی کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی جیتا تھا۔
فلم‘‘ کچھوے اڑ سکتے ہیں’’
کرد پناہ گزینوں کے ایک قصبے میں قائم، یہ بچوں کے ایک گروپ کی پیروی کرتا ہے جنہوں نے ان انتہائی حالات میں اپنا ایک چھوٹا سا شہر بنایا ہے۔ 2004 کی یہ فلم ایرانی کرد فلم ڈائریکٹر بہمن غوبادی نے بنائی ہے اور فلم فیسٹیول میں کئی ایوارڈز جیتے ہیں۔
فلم‘‘ کلوز اپ’’
عباس کیاروستامی کی یہ 1990 کی ایرانی دستاویز فلم ہے جس میں کیاروستامی ایک ایسے شخص کی حقیقی زندگی کی آزمائش دکھاتی ہے جو سینما سے اتنا پیار کرتا ہے کہ وہ فلم ساز محسن مخمل باف کی نقالی کرتا ہے ایک خاندان کو اپنی فلم میں اداکاری کرنے پر مجبور کرتا ہے اور یہاں تک کہ انہیں اپنے گھر کو سیٹ کے طور پر استعمال کرنے دیتا ہے۔
فلم ‘‘ دی رنر’’دوندہ
دی رنر(فارسی دوندہ) امیر نادر کی 1984 کی فلم ہے اور یہ شاید انقلاب کے بعد کی پہلی ایرانی فلم تھی جس نے دنیا بھر کی توجہ مبذول کروائی تھی۔ یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو اپنے تجسس کو پورا کرنے کے لیے بھاگنے کا فیصلہ کرتا ہے لیکن جلد ہی اسے کھا جاتا ہے۔مذکارہ بالا فلموں کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی فلم انڈسٹری کا مستقبل تابناک ہے اگر چہ مغربی میڈیا اسکے خلاف زہر اگلتا رہے گا۔
اپنا تبصرہ لکھیں.