21 اسفند عظیم ایرانی شاعر حکیم نظامی کی یوم ولادت
ایران میں 21 اسفند یعنی 12 مارچ یوم حکیم نظامی کے نام سے مناتے ہیں۔
ایران میں 21 اسفند یعنی 12 مارچ یوم حکیم نظامی کے نام سے مناتے ہیں۔
حکیم نظامی چھٹی صدی ہجری کے ایرانی شاعر ہیں ، ادیبوں نے حکیم نظامی اور ان کے والد اور دادا کا نام اور شہرت اس طرح لکھی ہے۔ الیاس نام اور شہرت نظامی، والد یوسف بن ذکی بن معید لکھی گئی ہے، ان کی کنیت ابو محمد اور لقب نظام الدین ہے۔
عظیم ایرانی شاعر حکیم نظامی نے خود اپنے والدین کے بارے میں لیلا اور مجنون میں کچھ اس طرح لکھا ہے:
گر شد پدرم به سنت جد یوسف پسر زکی موید
با دور به داوری چه کوشم دورست نه جور چون خروشم
گر مادر من رئیسه کرد مادر صفتانه پیش من مرد
گر خواجه عمر که خال من بود خالی شدنش وبال من بود
ایرانی شاعر نظامی نے بھی اپنا تخلص مثنوی اور غزالی میں ذکر کیا ہے لیکن ساتھ ہی نظامی، حکیم نظامی یا نظامی گنجوی کے نام سے مشہور ہوئے۔
حکمیم نظامی کی پیدائش کا سال پروفیسر ریپکا اور برٹلس نے 2 ہجری، شبلی نعمانی نے 2 ہجری اور وحید دستگاردی نے 1 تا 5 ہجری بتایا ہے۔
سوانح نگاروں اور مؤرخین میں سے کسی نے بھی حکیم نظامی کے لیے ملازمت اور عہدے کا ذکر نہیں کیا، اس سے یہ بات واضح ہے کہ حکیم نظامی اپنی جوانی سے ہی اپنی اعلی طبیعت اور ذوق و شوق سے واقف تھے اور علوم سیکھنے کے زمانے سے ہی مذہبی، فکری اور ادبی علوم سیکھنے اور ان میں کمال حاصل کرنے بعد وہ اپنا سارا وقت شاعری پڑھنے اور لکھنے میں صرف کیا کرتے اور اس فن میں اپنی ذاتی صلاحیتوں کا اظہار کیا کرتے تھے۔
اس عظیم ایرانی شاعر نے اپنی جوانی میں علم و ادب کی تمام عظیم ہستیوں کی طرح مطالعہ اور علم و ادب سے محبت اور دلچسپی رکھی، اپنی محنت سے علمی کمالات کو حاصل کرنے اور فن کمال سے اپنے آپ کو ثقافت اور فصاحت کے ایک اعلی درجے تک پہنچانے اور اسے ترقی دینے میں مصروف رہے۔
اپنے ادبی علمی اور ہنر کے علاوہ، حکیم نظامی نے فن فصاحت اور شعرکے ساتھ ساتھ فلسفہ، منطق، ریاضی، فلکیات اورمنطقی علوم کے علاوہ اسلامی علوم، قرآن، فقہ اور احادیث نبوی پر بھی عبور حاصل کر رکھا تھا۔
حکمیم نظامی کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انہوں نے پہلی بار فلسفیانہ مباحث کو اپنی شاعری میں شامل کیا۔
ایران کے اس عظیم شاعر نے مثنوی کے ساتھ نظمیں، غزلیں اور نعتیں بھی لکھی ہیں۔ نظامی میں ایک عظیم غزل نگار کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔ انہوں نے مئی اور مغان کو تصوف کے موضوعات کی اصلاح میں استعمال کیا ہے۔
اس عظیم ایرانی شاعر نے ایک حکیم اور فلسفی کی حیثیت سے قدیم علماء اور فلسفیوں کے عقائد کے مطابق اجسام اور جہتوں کی تخلیق کو مہارت سے بیان کیا ہے۔
وہ الہیات اور خود شناسی کے بارے میں ایک موحد فلسیوف کی حیثیت سے بھی بات کرتا تھا، جو مذہبی رہنماؤں اور بزرگوں کے خیالات اور عقائد سے متفق تھا۔
اپنے ماحول کے بارے میں اپنے زمانے کے علوم اور اس حقیقت کے ساتھ کہ ان کی بہت سی نظموں میں عقلی اور سائنسی موضوعات اور مسائل کا حوالہ دیا گیا ہے اور دانشور اور اہل علم انہیں سمجھتے ہیں، وہ کچھ اس طرح کہتے ہیں:
از مریدان بیمراد مباش در توکل کم اعتقاد مباش
من که مشکل گشای صد گرهم دهخدای ده و برون دهم
عقل داند که من چه میگویم زین اشارت که شد چه میجویم
حکمیم نظامی ایران کے ان شاعروں میں سے ہیں جنہیں فارسی شاعری کے ستونوں میں سے ایک ستون اور اس زبان کے ماہروں میں سے جانا جائے ۔ وہ ان لکھنے والوں میں سے تھے جو فردوسی اور سعدی کی طرح ایک منفرد اسلوب تخلیق اور مکمل کرنے میں اپنی مہارت آپ رکھتے تھے۔
صحیح الفاظ اور فقروں کا چناؤ، منفرد نئے مجموعے بنانے، نئے اور دلچسپ معانی اور موضوعات ، مناظر ، فطرت اور لوگوں کے حالات کو بیان کرنے میں تخیل اور درستگی کے ساتھ تفصیلات کی عکاسی اور تفریحی اور اختراعی تخلیق میں، استعارہ اور استعمال کے صف اول میں ر ہے۔
اس زمانے کے لوگوں کے رواج کے مطابق انھوں نے اپنی نظموں میں علمی اصطلاحات، عربی الفاظ و محاورات اور حکمت، تصوف اور عقلی علوم کے بہت سے بنیادی اصول بیان کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اپنی نظموں میں بعض اوقات مشکل اور پیچیدہ لیکن لذت آمیز معنی بیان کرنے میں ان کی مہارت اور نظمیں اور کہانیاں لکھنے کی صلاحیت، ان کی تقلید کا باعث بنی۔
اگرچہ نظامی ایک افسانوی شاعر ہیں اور انہوں نے اکثر اپنے الفاظ میں محبت کی کہانیاں لکھی ہیں، لیکن وہ ایک ذہین اور مفکر شاعر ہیں جو ایرانی ثقافت اور تاریخ سے بخوبی واقف ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی مثنوی کے قارئین سے بارہا کہا ہے کہ وہ ان کی نظموں میں اسرار و رموز کو تلاش کریں۔