چاپ مقالہ
اسلامی فن تعمیر پر ایرانی فن خطاطی اور مصوری کے اثرات
جب ہم اسلامی فن تعمیر یا فن خطاطی کا ذکر تے ہیں تو ہمارے ذہن میں جو سب سے پہلا نام ابھر کر آتا ہے وہ اسلامی جمہوریہ ایران ہو تا ہے جو فن تعمیر و خطاطی کے حوالے سے ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے جہاں پر دریافت ہونے والی قدیم عمارات اور دیواروںپر کندہ نوشتے اس کی دلیل ہے کہ ایران میں فن تعمیر عربوں کے مقابلے میں قدیم ہے۔ اگر چہ عرب کافی قدیم تاریخ رکھتے ہیں مگر فن تعمیر میں و ہ ایرانیوں کے ہم پلہ نہیں تھے جس کو خود عرب بھی تسلیم کرتے ہیں تاہم علم و زبان دانی اور فصیح البیانی میں عربوں کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اسلئے عربی رسم الخط بھی عربوں کا اعلیٰ ہے اور اعلیٰ کیوں نہ وہ زبان ہی ان کی ہے تاہم جب اسلام جزیرہ عرب سے باہر پھیلا تو اس نے سب سے زیادہ اپنے پڑوس میں واقع فارس( ایران) کو متاثر کیا۔
اسلامی فن تعمیر پر ایرانی فن خطاطی اور مصوری کے اثرات
حاتم خان (پشاور)
جب ہم اسلامی فن تعمیر یا فن خطاطی کا ذکر تے ہیں تو ہمارے ذہن میں جو سب سے پہلا نام ابھر کر آتا ہے وہ اسلامی جمہوریہ ایران ہو تا ہے جو فن تعمیر و خطاطی کے حوالے سے ہزاروں سال کی تاریخ رکھتا ہے جہاں پر دریافت ہونے والی قدیم عمارات اور دیواروںپر کندہ نوشتے اس کی دلیل ہے کہ ایران میں فن تعمیر عربوں کے مقابلے میں قدیم ہے۔ اگر چہ عرب کافی قدیم تاریخ رکھتے ہیں مگر فن تعمیر میں و ہ ایرانیوں کے ہم پلہ نہیں تھے جس کو خود عرب بھی تسلیم کرتے ہیں تاہم علم و زبان دانی اور فصیح البیانی میں عربوں کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اسلئے عربی رسم الخط بھی عربوں کا اعلیٰ ہے اور اعلیٰ کیوں نہ وہ زبان ہی ان کی ہے تاہم جب اسلام جزیرہ عرب سے باہر پھیلا تو اس نے سب سے زیادہ اپنے پڑوس میں واقع فارس( ایران) کو متاثر کیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کہ جب پہلی ہجری( چھٹی صدی عیسوی) کے آخر میں اسلام نے پھیلنا شروع کیا تو جہاں اس نے ایران و عراق سمیت دیگر عجمی دنیا کو اپنے حصار میں لیکر اسکی اخلاقی تربیت کی اور اسے اسلام کا آفاقی دین قبول کرنے پر امادہ کیا وہاں پر اس نے عجم کے کچھ اثرات بھی قبل کئے جس میں فن تعمیر و خطاطی بھی شامل تھا جو ہزاروں سال سے اس خطے میں چلا آرہا تھا ۔عرب و عجم کے اختلاط نے دنیا کو ایک نئے فن تعمیر و خطاطی سے روشناس کرایا جس کو ہم اسلامی فن تعمیر کہتے و خطاطی کہتے ہیں ۔ عربوں نے جب عروج حاصل کیا تو اسلام کے زیر سایہ انہوںنے فن خطاطی و تعمیر کو بھی بہت ترقی دی ۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایرانی و اسلامی فن تعمیر و خطاطی ایک سکے کے دو رخ ہیں ۔ اسلامی فن خطاطی کو جو ترقی ایرانی مسلمانوں نے دی ہے اس کی ایک دنیا گرویدہ ہے۔ یہاں تک کہ عربوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ شعار اسلام کے بارے میں ایران خطاطی نے جو خدمات انجام دی ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے ۔ ایرانی فن خطاطی کے اثرات آج بھی ترکی ،روسی ترکستان ، چینی ترکستان اور پاک و ہند تک محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ جب ترک النسل ایرانی و مقامی حکمرانوں نے ہندستان میں عروج پایا تو ان کیوجہ سے بہت سے ایرانی ماہرین فن بھی چلے آئے جنہوں اس خطے میں بھی فن کو ترقی دی اور بین الاقوامی سطح پر نام کمایا ۔ آگرے کا تاج محل اس ہی ایرانی فن تعمیر کا کمال تھا جس کو استاد احمد لاہوری نے تعمیر کیا جس کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں تاہم یہاں پر ہم اپنی بات صرف ایرانی فن خطاطی تک محدود رکھیں گے ۔ اسلامی طرز پر ایرانی فن خطاطی کی بات کی جائے تو پاکستان میںموجود بہت سے مساجد میں اسکے اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ لاہور کی بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خان اور پشاور کی مسجد مہابت خان میں بھی فن خطاطی و تعمیر کے نادر نمونے نظر آتے ہیں وہ اسلامی ایران سے متاثر ہیں۔ لہذا یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا کہ اسلامی فن خطاطی و تعمیر نے ایرانی ، اسلامی ہند ، ترکی اور و سطی ایشیا کے فن سے ملکر کر جنم لیا ہے۔ اس لئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی فن تعمیر پر ایرانی فن پاروں و خطاطی کی گہر ی چھاپ نظر آتی ہے ۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ مسلم دنیا میں فارس( ایران) ہی وہ خطہ ہے جس نے اکثر مسلمان قوموں کاملاپ کروایا ہے جس میں عرب ،ترک،مصری ،افغان اور ہندی شامل ہیں ۔یہی وجہ ہے ایران امت مسلمہ کی پھیلائو کے لئے ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے جو عربوں نے ایران و عراق میں قائم کیا تھا ۔ اسلام جزیرہ عرب سے باہر نکل کر ہسپانیہ ، آرمینا ، افریقہ اور ہندوستان میںکیسے پھیلا یہ کہانی تو سب جانتے ہیںاس کہانی سے بھی عیاں ہے کہ فارس (ایران) کو اسلامی تہذیب کی تشکیل میں ممتاز حیثیت ہے ۔اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے اب اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ ایرانی تہذیب(بشمول عراق) نے اپنی اسلامی تاریخ کے دوران بہت بڑے نام پیدا کئے ہیں جن میں کچھ کاذکر ہم اپنے قارئین کے لئے ضروری سمجھتے ہیں ۔ جعفر علی تبریزی 15ویں صدی میں خطاطی میں ایک مشہور ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور کاتب بھی تھے۔ وہ نستعلیق کے ساتھ ساتھ دیگر چھ کلاسیکی رسم الخط میں بھی مہارت کے لیے مشہور تھے۔ ان کے ممتاز طالب علم اظہر تبریزی نے ایک بار جعفر کو نستعلیق کا دوسرا بانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے استاد سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ابو علی محمد ابن علی ابن مقلہ جسے عرف عام میں ابن مقلہ کہا جاتا ہے عباسی خلافت کا ایک عہدیدار تھا جو 10ویں صدی کے اوائل میں اعلی ریاستی عہدوں پر فائز ہوا انہوں نے بھی فن خطاطی کو بہت ترقی دی۔مرجان الکاتب الاسلامی ایک مشہور خاتون ایرانی خطاط ہیں جو 17ویں صدی میں صفوید فارس میں مقیم تھیں وہ 1670 ء کے آس پاس کے عرصے میں کافی سرگرم تھیں انہوں نے بھی بہت اچھے فن پارے چھوڑے۔میر علی تبریزی 14 ویں صدی کے ایک ممتاز ایرانی خطاط تھے جن سے ناس طالبی خطاطی کے انداز کی ایجاد منسوب کی جاتی ہے۔میر عماد شاید سب سے مشہور فارسی خطاط ہیں۔ وہ ایران کے شہر قزوین میں پیدا ہوئے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نستعلیق کا انداز میر عماد کی تخلیقات میں اپنی اعلیٰ ترین خوبصورتی کو پہنچا۔ یہ نستعلیق خطاطی کے بہترین نمونوں میں سے ہیں اور دنیا کے متعدد عجائب گھروں میں رکھے گئے ہیں۔مرزا غلام رضا اصفہانی جسے خوشنویس کے نام سے جانا جاتا ہے 19ویں صدی کے آخر میں ایرانی خطاط تھے۔ وہ فارسی خطاطی کے ماہروں میں سے ایک تھے خاص طور پر نستعلیق، شکاستہ نستالق اور شکاستہ رسم الخط کے استاد مانے جاتے ہیں۔یاقوت المستعصمی ایک مشہور خطاط اور آخری عباسی خلیفہ کے سیکرٹری تھے۔زین العابدین محلاتی یا زین العابدین ابن محمد ابن علی المحلاتی فارسی کے ایک نامور خطاط تھے جو 1870 کی دہائی کے آس پاس کے عرصے میں سرگرم تھے۔ وہ قاچاری فارس کے ماتحت محلات میں رہتے تھے اور فن خطاطی و عریض نویسی کاکام انجام دیتے تھے۔ انہوں نے کئی سونے سے روشن قرآن اور تفسیر کی کتابیں تیار کیں۔ اسلامی فن خطاطی میں عربی و ترکی فن خطاطی کیساتھ ایرانی فن خطاطی کو نظر انداز نہیںکیا جاسکتا ہے ۔اس نے اسلامی فن تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ ایران موجودہ دور میں بھی فن خطاطی کو فروغ دینے میںاہم کردار ادا کر رہا ہے اور اس نے پاکستان سمیت ہر ملک میں فن خطاطی کو فروغ کے لئے خصو صی کلاسز کا سلسلہ شروع کر رکھاہے جو پشاور میں بھی جاری ہے یہ خطاطی سے انس رکھنے والوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔ اگر مصوری کی بات کی جائے تو اس میںایرانیوں کا کوئی ثانی ہے انہوں اس فن کو بھی بام عروج پر پہنچا دیا ہے ایران کافن مصوری ہزاروں سال پرانا ہے ۔ کورش اعظم کے زمانے کے دریافت شدہ فن پاروں سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ خطہ مصوری کے لئے کتنا زرخیز رہا ہے۔ ساسانیوں نے اس کو مزید ترقی دی اور آگے چل کر اس نے اسلامی فن تعمیر پر بہت اثرات مرتب کئے جس پر کئی ضخیم کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور فن خطاطی کی طرح اس کے اثرات بھی ہندوستان تک محسوس کیا جاسکتے ہیں ۔ایران نے مصوری کے دنیا میں بھی بہت نام پیدا کئے ہیں جن کا بھی مختصر ذکر کئے دیتے ہیں ۔کمال الدین بہزاد، جسے کمال الدین بہزاد یا کمال الدین بہزاد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ایک فارسی مصور تھے اور تیموری کے اواخر اور صفوی فارسی ادوار کے اوائل میں ہرات اور تبریز میں شاہی درباروں کا سربراہ تھے۔ انہیں اسلامی چھوٹی پینٹنگ کی عظیم روایت کے موجد اعلیٰ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ رضا عباسی، فارسی میں عام طور پر رضا عباسی بھی آقا رضا یا کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ صفوی دور کے بعد اصفہان سکول کے فارسی مائیکچرسٹ(چھوٹی تصاویر ) تھے انہوں اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ شاہ عباس اول کے لیے کام کرتے ہوئے گزار ۔ انھیں فارسی منی ایچر کا آخری عظیم استاد سمجھا جاتا ہے۔۔فرخ بیگ، جسے فرخ حسین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک فارسی منی ایچر پینٹر تھا، جس نے اپنے کیریئر کا بڑا حصہ صفوی ایران اور مغل ہندوستان میں گزارا جس کی تعریف مغل شہنشاہ جہانگیر نے "عمر میں بے مثال" کے طور پر کی۔فتح علی شاہ قاجار کے دور میں مہر علی فارسی دربار کے عظیم شاہی مصوروں میں سے ایک تھے اور اس دور حکومت کے ابتدائی حصے کا سب سے قابل ذکر فارسی تصویر نگار شمار کئے جاتے ہیں ۔ مہر علی قاجار فن کے ابتدائی دور کے صف اول کے مصوروں میں سے ایک تھے۔ اس کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست موجود ہے مگر ہم اپنی بات اس پر ختم کرتے ہیں کہ ایران اور فن خطاطی و مصوری لازم و ملزوم ہیں اس کے بغیر اسکی تاریخ نامکمل ہے جس پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے ۔
اپنا تبصرہ لکھیں.