مرتضیٰ مطہری
عالم دین ، فلسفی، اسلامی مفکراور دانشور ۔
مرتضی مطہری 1919 میں مشہد کے گاؤں فریمان میں پیدا ہوئے۔ دینی علوم کی ابتدائی حصول کے بعد، مشہد کے ایک مدرسے میں داخل ہوئے اور چار سال تک عربی گرامر، منطق، فقہ اور اصول کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد قم چلے گئے اور وہاں کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ 15 سال تک آیت اللہ بروجردی، سید محمد محقق داماد اور سید محمد حجت جیسے عظیم اساتذہ سے علوم مدرسہ اور اسلامی فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران وہ 12 سال تک امام خمینی کے بھی شاگرد رہے اور ان کے اخلاقی درس میں شامل ہو کر اپنی فکری اور روحانی شخصیت کی تکمیل کی۔ 1950 میں وہ علامہ محمد حسین طباطبائی کے دروس میں شامل ہوئے اور ابن سینا کے فلسفہ اور مادی فلسفہ کا مطالعہ کیا۔ آپ نے اپنی شہادت تک علامہ سے اپنا روحانی اور علمی تعلق قائم رکھا۔
مطہری اسلامی جدید تعلیمات اور فلسفہ میں سنجیدگی اور استقامت کے ساتھ ساتھ ایران کے اس وقت کے سیاسی اور سماجی حالات سے بھی بے بہرہ نہیں تھے اور ،،جمعيت فدائيان اسلام،، سے رابطے میں تھے۔ 1952 میں آپ تہران چلے گئے آپ نے (مدرسة سپهسالار (مدرسة عالي شهيد مطهري امروز)سپہ سالار اسکول (موجودہ شہید مطہری ہائی اسکول) میں پڑھایا۔ اور ساتھ ہی مروی سکول میں بھی اسلامی علوم پڑھاتے رہے ۔ جو ان کی شہادت سے تین سال پہلے تک جاری رہا۔ اس کے ساتھ آپ یونیورسٹی کی فضا سے نئے علوم کی تعلیم کے لئے منسلک ہوئے اور یونیورسٹی کے اعلی تعلیمی ماحول کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وہاں اسلام افکار کی ترویج جاری رکھی ۔ آپ عرصہ 20 سال سے زائد تک یونیورسٹی کی دینیات اور اسلامی علوم کی فیکلٹی کا حصہ رہے ۔ اس دوران انہوں نے فلسفہ کے موضوع پر کئی تصانیف بھی تصنیف کر ڈالیں ۔ جن میں چار جلدوں پر مشتمل کتاب فلسفے کے اصول اور ریلزم ان میں زیادہ اہم کام ہے ۔
1960 میں، مرتضی مطہری نے اپنی کتاب داستان راستان (سشوں کے واقعات) کو شائع کیا، جس نے یونیسکو کے قومی کمیشن کا انعام حاصل کیا تھا.
1961 کی دہائی کے آغاز سے، آپ نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور شاہ کی مخالفت میں تقاریر وتحاریک کی شکل میں اپنے انقلابی نظریات کو عام کرنا شروع کیا ۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے موقع پر آپ نے پیرس کا سفر کیا اور امام خمینی سے ملاقات کے دوران آپ کو انقلابی کونسل کی تشکیل کا کام سونپا گیا ۔ آخر کار یکم مئی 1979 کو فرقان گروپ کے رکن محمد علی بصیری نے آپ کو گولی مار کر شہید کر دیا ۔ انہوں نے 50 سے زیادہ تصانیف چھوڑی ہیں، جن میں حماسہ حسينی (تین جلد)، آشنايی با علوم اسلامي (چار جلد) اور شرح منظومہ ملاهادی سبزواری شامل ہیں۔
نام | مرتضیٰ مطہری |
ملک | ایران |
عرفیت | مطہری |