حضرت امام حسن عسکری(ع) کی ولادت با سعادت
حضرت امام حسن عسکری(ع) کی ولادت با سعادت مبارک ہو
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 8 ربیع الثانی سن 232 ہجری قمری بروز جمعہ مدینہ منورہ میں جناب حدیثہ خاتون کے بطن مبارک سے متولد ہوئے۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفی (ص) کے رکھے ہوئے نام، حسن بن علی سے موسوم کیا۔
حضرت امام حسن عسکری (ع) کی ولادت با سعادت مبارک ہو
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 8 ربیع الثانی سن 232 ہجری قمری بروز جمعہ مدینہ منورہ میں جناب حدیثہ خاتون کے بطن مبارک سے متولد ہوئے۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے والد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمد مصطفی (ص) کے رکھے ہوئے نام، حسن بن علی سے موسوم کیا۔
آپ کی کنیت ابو محمد تھی اور آپ کے بہت سے القاب تھے۔ جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اور ابن الرضا زیادہ مشہور ہیں۔
آپ کا لقب عسکری اس لیے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلے میں بمقام سرمن رائے رہتے تھے، اسے عسکر کہا جاتا تھا اور بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پر لشکر جمع کیا تھا اور خود بھی قیام پذیر تھا تو اسے عسکر کہنے لگے تھے، اور خلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے بلوا کر یہیں مقیم رہنے پر مجبور کیا تھا نیز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کو اسی مقام پر نوے ہزار لشکر کا معائنہ کرایا تھا اور امام (ع) نے اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مشاہدہ کرا دیا تھا انہیں وجوہ کی بناء پر اس مقام کا نام عسکر ہو گیا تھا، جہاں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام مدتوں مقیم رہ کر عسکری مشہور ہو گئے۔
امام حسن عسکری (ع) کی زندگی کا مختصر جائزہ:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مقابلہ بھی اپنے اجداد طاہرین کی طرح اس وقت کے ظالم ، جابر ، غاصب ، عیار اور مکار عباسی خلفا سے تھا۔ آپ کی مثال اس دور میں ایسی ہی تھی جس طرح ظلم و استبداد کی سیاہ آندھیوں میں ایک روشن چراغ کی ہوتی ہے۔
آپ مہتدیوں اور معتمدوں کی دروغگوئی ، فریب ، سرکشی کے دور میں گم گشتہ افراد کی ہدایت کرتے رہے۔ آپ کی امامت کے دور میں عباسی خلفاء کے ظلم و استبداد کے محلوں کو گرانے کے بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو براہ راست امام (ع) کی ہدایات پر مبنی تھے۔ ان میں سے مصر میں احمد ابن طولون کی حکومت کا قیام ، بنی عباس کے ظلم و ستم کے خلاف حسن ابن زید علوی کی درخشاں خونچکان تحریک اور آخر کار حسن ابن زید کے ہاتھوں طبرستان کی فتح اور صاحب الزنج کا عظیم جشن اس دور کے اہم واقعات میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ مخفیانہ طور پر جو ارتباط امام علیہ السلام سے برقرار کیے جاتے تھے، اس کی وجہ سے حکومت نے اس باب ہدایت کو بند کرنے کے لیے چند پروگرام بنائے۔ پہلے تو امام کو عسکر چھاؤنی میں فوجیوں کی حراست میں دے دیا۔ دوسرے مہتدی عباسی نے اپنے استبدادی اور ظالمانہ نظام حکومت پر نظر ثانی کی اور گھٹن کے ماحول کو بہ نسبت آزاد فضا میں تبدیل کیا اور نام نہاد ، مقدس مآب ، زرخرید ملّا عبد العزیز اموی کی دیوان مظالم کے نام سے ریا کاری پر مبنی ایک ایسی عدالت تشکیل دی جہاں ہفتے میں ایک دن عوام آ کر حکومت کے کارندوں کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے تھے۔
لیکن اس ظاہری اور نام نہاد عدالت کا در حقیقت مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ روز بروز امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور چاروں طرف سے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک سے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور عوام کی سیل آسا تحریک سے بنی عباس کی حکومت کے زوال کے خوف سے بنی عباس نے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لیے پروگرام بنایا کہ پہلے تو مال و دولت کو عوام کے درمیان تقسیم کیا جائے تا کہ لوگوں کی سرکشی کم ہو اور عوام کو خرید کر ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ جس امام میں حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے میں آسانی ہو ۔
تاریخ شاہد ہے کہ تمام دنیا کے جابر و ظالم حکمرانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب بھی ان کے استبداد کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ جلد سے جلد اس آواز کو دولت سے خاموش کر دیں اگرچہ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ آنے والی نسل میں ان کے لیے سوائے رسوائی اور ذلت کے کچھ نہیں ہو گا اور ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی دنیا نہ صرف یہ کہ حمایت کرے گی بلکہ ان بزرگوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھی گی اور ان مظلوموں کی زندگی کے نقش قدم پر چل کر فخر کرے گی۔ امام حسن عسکری (ع) نے بھی ہمیشہ اپنے اجداد کی طرح دین اسلام کی حفاظت اور پاسداری میں اپنی زندگی کے گرانقدر لمحات کو صرف کیا اور دین کی حمایت کرتے رہے اگرچہ دین کی حمایت اور عوام کی خدمت عباسی حکمرانوں کے لیے کبھی بھی خوش آئند نہیں رہی، لیکن خداوند متعال نے اپنی آخری حجت اور دین اسلام کے ناصر حضرت امام مہدی (ع) کو امام حسن عسکری کے گھر میں بھیج کر واضح کر دیا ہے کہ دین اسلام کے اصلی مالک و وارث اہل بیت رسول (ع) ہی ہیں۔
اپنا تبصرہ لکھیں.