چاپ مقالہ
برادر ملک سائنس و ٹیکنالوجی ، طب اور تعلیم و تحقیق میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد چاند پر کمند ڈالنے کے لئے بھی پر تولنے لگا
جب 1979 ء میں اسلامی جمہوریہ ایران میں انقلاب بپا ہو ا تھا تو اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ چالیس سال کی قلیل مدت میں اس کو شمار دنیا کی چند بڑی اقتصادی طاقتوں میں ہونے لگے گا بلکہ اکثراستعماری قوتوں اور انکے حواریوں کا خیال ہے تھا کہ شاہی ظلم جبر کے خلاف جو انقلاب ایک شعلہ بن کر اٹھا تھا وہ بہت جلد راکھ میں تبدیل ہو جائے گااور کچھ سالوں میں استعماری قوتیں اس کے حصے بخرے کر کے اپنا طابع کر لیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا آج ایران اپنے پاسداران کی جدوجہد کے باعث دنیا کے نقشے پر ایک جدید اسلامی ریاست کی صورت میں سانس لے رہا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تواسلامی دنیا اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے ایران ہر شعبے میں ترقی کی راہ پر گامز ن ہے۔
جدید ایران ترقی کی راہ پر گامزن!
برادر ملک سائنس و ٹیکنالوجی ، طب اور تعلیم و تحقیق میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد چاند پر کمند ڈالنے کے لئے بھی پر تولنے لگا۔
تحریر محمد داؤد (پشاور)
جب 1979 ء میں اسلامی جمہوریہ ایران میں انقلاب بپا ہو ا تھا تو اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ چالیس سال کی قلیل مدت میں اس کو شمار دنیا کی چند بڑی اقتصادی طاقتوں میں ہونے لگے گا بلکہ اکثراستعماری قوتوں اور انکے حواریوں کا خیال ہے تھا کہ شاہی ظلم جبر کے خلاف جو انقلاب ایک شعلہ بن کر اٹھا تھا وہ بہت جلد راکھ میں تبدیل ہو جائے گااور کچھ سالوں میں استعماری قوتیں اس کے حصے بخرے کر کے اپنا طابع کر لیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا آج ایران اپنے پاسداران کی جدوجہد کے باعث دنیا کے نقشے پر ایک جدید اسلامی ریاست کی صورت میں سانس لے رہا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تواسلامی دنیا اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے ایران ہر شعبے میں ترقی کی راہ پر گامز ن ہے۔ اگرچہ مغربی دنیا میں ایران کی اسلامی جمہوری حکومت کے خلاف نا حق پروپیگنڈا کیا جارہا ہے مگر حقیقت ہے اس کے برعکس ہے ۔ ایران کا حکومتی نظام جمہوری طریقے سے چلایا جاتا ہے جس کے لئے ہر چار سال بعد چار سال بعد انتخابات کر وائے جاتے ہیں اور 1979 ء میں انقلاب ایران کے بعد سے اس میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے جس کے باعث اس کی پالیسیاں بھی مستقل ہیں جس کے بلبوتے پر وہ دن دگنی رات چکنی ترقی کر رہا ہے جوایرانی قیادت کی جانفشانی اور اپنے ملک کے ساتھ دیرینہ انس اور وفاداری کا بین ثبوت ہے ۔
عمومی طور پر جب بھی ایران کا ذکر آتا ہے تو اس کے جوہری پروگرام اور یورنیم کی افزودگی کی پاداش میں اس کی اس پر لگائے جانے والی پابندیوں کا تذکر ہ کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی جمہوری ایران کی دوسری وجہ تسمیہ مغربی میڈیا میں اس کی امریکہ و اسرائیل دشمنی ہے جس کے باعث اکثر ایشیائی ممالک میں ایران کے بارے میں معلومات محدود ہیں ۔ ایران پر جتنے الزامات لگائے ہیں اس اکثر حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مغربی میڈیا میں اس کا چہرہ مسخ کر کے پیش کی جاتا ہے جس کا حقیقت کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ایران نے جوہری سائنس کے ساتھ ساتھ جس شعبے میں سب زیادہ ترقی کی ہے وہ اس کا تعلیمی نظام ہے جس کی 65 فیصد باگ ڈور خواتین کے ہاتھ میں ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایران میں خواتین پر عائد پابندیوں اور قید و بند کی جو داستانیں زبان زد عام ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔ ایرانیوں کی علم دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ اس وقت وہاں پر تقریباً 50 3 کے قریب یونیورسٹیاں موجود جن میں 54 سرکاری یونیورسٹیاں جبکہ289 نجی یونیورسٹیاں ہیں ۔ان تعلیمی اداروں میں اسلامک آزاد یونیورسٹی دنیا کی چھٹی بڑی یونیورسٹی ہے جس کی دو خود مختار اور31 سرکاری کیمپس قائم کئے گئے ہیں جس میں پوسٹ گویجویٹ 8 لاکھ 25 ہزار ،پوسٹ گریجویٹ1 لاکھ 77 ہزار جبکہ 67 ہزار پی ایچ ڈی طلباء زیر تعلیم ہے جس کی کیمپس ایران کے علاوہ ، برطانیہ ، متحدہ عرب امارات ، لبنان اور افغانستان میں بھی قائم جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایران واقعی مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے اہل ہیں۔ جہاں پر ہونے والی تحقیق و تعلیم واقعی امت مسلمہ کے قابل تقلید اور قابل فخر ہے ۔ علاوہ ازیں طب کے شعبے میں ایران نے گذشتہ دہائیوں کے دوان کامیاب کے جھنڈے گاڑے ہیں ۔ ڈبلیوایچ او کے اندازے کے مطابق ایران جو 2000 تک صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں 58 ویں جبکہ صحت کے نظام کے حوالے 93 ویں نمبر نے کمال کار کر دگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بہت بڑی جست لگائی 2016 میں 30 تیسری پوزیشن پر قبضہ کر لیا جو بہت بڑی کامیاب تھی اس طرح اس نے امریکہ اور برا برازیل کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ رپورٹ کے مطابق ایران انسان کی اوسط عمر 75.5 سال اور سالانہ صحت کی سہولیات فراہم کرنے پر 346 بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے تسلیم کیا ہے کہ گذشتہ بیس سال کے دوران شعبہ صحت میں نمایاں ترقی کی ہے اور اب اس کا شکار دنیا کے بہترین پرائمری ہیلتھ کیئر نیٹ ورکس میں ہو تا ہے ۔ اس کے نتیجے میں زچکی کے دوران زچہ و بچہ کی ( آئی ایم آر) شرح اموت بہت کم ہے ۔ ریکارڈ کے موت ایک ہزار کیسوں میں زچہ و بچہ کی شرح اموات 28.6 ہے جو 2000 میں 122 تھی ۔ اسی طرح ایران کی 95 آبادی کو صحت کی مفت سہولیات میسر ہیں اور انکا علاج سرکاری سطح پر کیا جاتا ہے جس میں انکی مفت ادویات بھی دی جاتی ہیں ۔
ایران نے جہاں دیگر شعبوں میں تیز رفتار ترقی کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے وہاں اس نے خلائی پروگرام کو بھی بہت تیز سے ترقی دی ہے جس سے لگتا ہے بہت جلد اس شمار خلاء میں بھی اپنا لوہا منوانے والے ممالک میں شامل ہو گا۔ یاد رہے کہ ایران 9واں ملک ہے جس نے مقامی طور پر تیار کردہ سیٹلائٹ کو اپنے لانچر کے ذریعے مدار میں رکھا اور خلا میں جانوروں کو بھیجنے والا چھٹا ملک ہے۔
یاد رہے کہ 28 اکتوبر 2005 کو کوس موس بوسٹر راکٹ نے سینا 1 لانچ کیا۔ مشترکہ ایرانی روسی سینا-1 منصوبے پر 15 ملین امریکی ڈالر لاگت آئی اور اس لانچ نے ایران کو اپنا سیٹلائٹ رکھنے والا 43 واں ملک بنا دیا۔ ایران، چین اور تھائی لینڈ کا مشترکہ تحقیقی سیٹلائٹ 6 ستمبر 2008 کو چینی لانگ مارچ 2C کیریئر راکٹ پر لانچ کیا گیاجس کا مقصد قدرتی آفات جیسے سیلاب، خشک سالی، ٹائفون، لینڈ سلائیڈنگ اور زلزلے پر تعاون کو بڑھانا تھا۔ تائیوان ایس ایل سی سے آٹھ منصوبہ بند زمین کے مشاہداتی سیٹلائٹس کو لانچ کیا گیا۔ یہ سیٹلائٹ چھ دیگر سیٹلائٹس کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کریں گے جو ابھی لانچ ہونا باقی ہیں۔ اس کا مشاہداتی نشان 720 کلومیٹر ہے جو تین سال تک کام کریں گے۔ ان کے پاس جدید ترین امیجنگ سسٹم اور انفراریڈ کیمرے ہیں اور ہر دو دن بعد عالمی سکین فراہم کرتے ہیں۔ ایران نے منصوبے کی کل لاگت کے 44 ملین ڈالر میں سے 6.5 ملین امریکی ڈالر ادا کیے تھے۔علاوہ ازیں امید ایران کا دوسرا سیٹلائٹ ہے جس نے فروری 2009 میں مدار میں قدم رکھا گیا اور اسے تحقیق اور ٹیلی کمیونیکیشن کے لیے ڈیٹا پروسیسنگ سیٹلائٹ کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اسی طرح رسد1 ایک امیجنگ سیٹلائٹ ہے جسے ایران نے کامیابی سے بنایا اور لانچ کیا ہے۔ سیٹلائٹ کو 15 جون 2011 کو صفیر راکٹ لانچر کے ذریعے 260 کلومیٹر کے مدار میں بھیجا گیا تھا۔یہ 150 میٹر ریزولوشن کے ساتھ زمین کی تصویروں پر واپس بیم کرتا ہے۔نوید ایک "تجرباتی سیٹلائٹ" ہے جسے طلباء نے کیمرے اور ٹیلی کمیونیکیشن کے آلات کی جانچ کے لیے بنایا تھا، اسے 3 فروری 2010 کو عوام کے لیے ظاہر کیا گیا تھا۔ اس میں سٹور ڈمپ کی صلاحیت ہے 3 فروری 2012 کو، ایرانی پریس نے اطلاع دی کہ ایران نے اپنے مقامی طور پر تیار کردہ نویدسیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ مدار میں چھوڑ دیا ہے۔ فجر ایک امیجنگ سیٹلائٹ ہے جس میں ایران الیکٹرانکس انڈسٹریز کی طرف سے بنایا گیا تجرباتی مقامی طور پر بنایا گیا اس میں جی پی ایس GPS سسٹم بھی موجود تھا ۔ سیٹلائٹ کی زندگی کا دورانیہ 1.5 سال تھا اور اس کی امیجنگ ریزولوشن 500 میٹر تھی۔ یہ پہلا ایرانی سیٹلائٹ ہے جس نے "کولڈ گیس تھرسٹر" استعمال کیا ہے اور اس میں سولر پینل ہیں۔ اصل میں اسے 2012 میں لانچ کیا جانا تھا۔ آخر کار، فجر کو 2 فروری 2015 کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا اور مدار میں رکھا گیا۔ 26 فروری 2015 کو، فجر نے 23.8 دن کے مدار میں رہنے کے بعد زمین کی فضا میں دوبارہ داخل ہوا۔دوستی، زمین کے مشاہدے کے لیے ڈیزائن کیا گیا سیٹلائٹ۔ 5 فروری 2019 کو صفیر راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا۔ امیر کبیر سیٹلائٹ جس کا وزن 80 کلوگرام ہے، مبینہ طور پر 660 کلومیٹر کے دائرے میں سورج کے ہم آہنگ مدار میں رکھا جائے گا اور یہ تین سے پانچ سال کے درمیان خلا میں رہے گا۔9 فروری 2020 کے ایران نے مقامی وقت کے مطابق 19:15 پر امام خمینی خلائی مرکز سے سیمرغ راکٹ کے ذریعے مواصلاتی سیٹلائٹ ظفر 1 کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا۔ طلوع، ایران الیکٹرانکس انڈسٹریز کی طرف سے SIGINT صلاحیتوں کے ساتھ بنائے جانے والے جاسوسی مصنوعی سیاروں کی نئی نسل میں سے پہلا ہے۔ اسے سیمرغ کے ذریعے لانچ کیا جائے گا۔ناصر 1، ایران کا مقامی طور پر ڈیزائن کردہ سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم (SAT NAV) مدار میں حرکت کرنے والے مصنوعی سیاروں کے درست مقامات کا پتہ لگانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ایران ایشیا پیسیفک سپیس کوآپریشن آرگنائزیشن (اے پی ایس سی او) کے ارکان کے ساتھ 10 سیٹلائٹ پراجیکٹس کو بھی نافذ کرنا ہے۔ تنظیم نے لائٹ سیٹلائٹس کی ڈیزائننگ، تعمیر اور لانچنگ، 500-600 کلوگرام وزنی مڈل کلاس سیٹلائٹس، ریسرچ سیٹلائٹس، ریموٹ سینسنگ اور ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائٹس کے 10 منصوبوں کی وضاحت کی ہے۔بشارت سیٹلائٹ ایران او آئی سی کے کچھ ممبران کے تعاون سے تعمیر کر رہا ہے جنہوں نے اس منصوبے میں رضاکارانہ طور پر کام کیا ہے۔ اسے ایران نے لانچ کیا ہے۔ اس منصوبے پر ایران کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرنے والے ممالک میں پاکستان، ترکی، ملائیشیا اور کچھ عرب ممالک شامل ہیں۔ اس کی لانچ کی تاریخ ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی ہے۔سار (اسٹارلنگ) کو ایران کی خاجہ ناصر طوسی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی تیار کرے گی۔
ایران ایرو اسپیس انڈسٹریز آرگنائزیشن (IAIO) کے سربراہ رضا طغی پور نے 20 اگست 2008 کو انکشاف کیا کہ ایران ایک دہائی کے اندر خلا میں انسانی مشن بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس ہدف کو اگلے 10 سالوں کے لیے ملک کی اولین ترجیح قرار دیا گیا، تاکہ 2021 تک ایران کو خطے کی صف اول کی خلائی طاقت بنایا جا سکے۔اگست 2010 میں سابق صدر احمدی نژاد نے اعلان کیا کہ ایران کے پہلے خلاباز کو 2019 تک ایرانی خلائی جہاز میں سوار کر کے خلا میں بھیجا جانا چاہیے۔ایرانی انسانی خلائی پروگرام کے مطابق، پہلی ذیلی مداری خلائی پرواز 2016 تک 200 کلومیٹر سے کم اونچائی پر حتمی مداری خلائی پرواز کی تیاری کے طور پر کی گئی تھی ایسی کوئی گاڑی تیار نہیں ہوئی۔قمری پروگرام۔مغربی میڈیا نے نقل کیا ہے کہ ایران نے 2025 تک چاند پر ایک خلاباز کو اتارنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ فی الحال ایران کے پاس درمیانے درجے کا لفٹ راکٹ نہیں ہے، اس لیے فی الحال ایران کی جانب سے کسی انسان کو خلا میں بھیجنا آلات کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں ہے تاہم جس رفتار کیساتھ ایران کام کر رہا ہے وہ بہت جلد اپنے مشن میں کامیاب ہو جائے گا۔
اپنا تبصرہ لکھیں.