فارابی

فارابی

فارابی

اسلامی فلسفہ کا قیام

معلم ثانی کے لقب سے مشہور ابو نصر محمد بن محمد بن طرخان بن اوزلغ، اسلامی فلسفے کے بانی اور اسلامی دنیا میں یونانی رسمی منطق کی منتقل کرنے والے، اور عظیم ترین ایرانی فلسفی اور سائنسدان جو دریائے نیل کے پار فاراب میں پیدا ہوئے۔  فارابی آرٹس اور سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بغداد گئے اور ابو بشر متی جیسے اعلیٰ درجے کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے۔ پھر انہوں نے حران کا سفر کیا، جہاں انہوں نے ایک عیسائی حکیم  اور فلسفی یوحنا بن حیلان  (جیلان) سے علم منطق کی تعلیم مکمل کی۔ پھر جب وہ فلسفیانہ علوم کی تکمیل کے لیے بغداد واپس آئے اور (ارسطو) کے فلسفیانہ اور منطقی افکار کا مطالعہ اور تحقیق کی تو آپ نے  نے شام، مصر، حران اور مرو کے دورے کیے جہاں آپ تدریس اور تصنیف میں مصروف رہے۔ اپنی زندگی کے دوران انہوں نے بہت سے طلباء کی تربیت کی جن میں یحییٰ بن عدی بھی شامل تھے۔  فارابی کو علم موسیقی کے بارے میں بہت کچھ معلوم تھا اور انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی۔ آپ کے زیادہ تر علمی آثار فلسفہ، منطق، سماجیات اور انسائیکلوپیڈیا کے شعبوں میں ہیں، اور آپ اسلامی دور میں ظاہر ہونے والے پہلے فلسفی ہیں۔اس لیے آپ کو ’’استاد فلاسفہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

فارابی کا تعلق نئے افلاطونی مکتب سے تھا، جس نے افلاطون اور ارسطو کے افکار کو توحیدی الٰہیات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، اور وہ اسلامی فلسفہ میں بزرگ مفکرین میں شمار ہوتے ہیں۔ارسطو کے علمی آثار پر لکھے گئے قیمتی تبصروں کی وجہ سے انہیں "معلم ثانی" بھی  کہا جاتا ہے۔

 

فارابی کے علمی آثار اور نظریات

فارابی کے علمی آثار میں سے "الجمع بین رایی الحکیمین"، "اغراض مابعد الطبیعہ"، "احصاء العلوم"، آراء اہل المدینۃ الفاضلہ"، "عیون المسائل"، تحصیل السعادہ"، "رسالہ فی ماھیۃ العقل" السیاسۃ المدنیۃ"، "رساله فی اثبات المفارقات"، "کتاب الحروف" اور" المدخل الی صناعه الموسیقی و فصوص‌ الحکم" قابل ذکر ہیں۔ اپنے علمی آثار میں، فارابی نے فلسفہ اور اخلاقیات پر مبنی ایک عالمی مذہب دکھانے اور ایک مدینہ فاضلہ وضع کرنے کی کوشش کی جس میں نظریاتی خوبیاں اخلاقی خوبیوں کے ادراک کا باعث بنیں اور اخلاقی خوبیاں عملی فضائل کے ظہور کا باعث بنیں۔  سماجی زندگی کے ظہور کے لیے فارابی کی مذہبی سیاسی فکر میں مذہب اور سائنس کے میل جول کو بھی نمایاں صلاحیتوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اور یہ بے جا نہیں ہے کہ محسن مہدی فارابی کے نظریے کو عصری دنیا میں خوشی اوراسی طرح اسلامی معاشروں میں بھی کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں، کیونکہ سیاسی فلسفے کے فریم ورک میں مذہب کا سائنسی نظریہ آزاد سوچ اور مذہبی عقائد کے پر امن بقائے باہمی کی بنیاد ہے۔ بلاشبہ فارابی نے محسوس کیا کہ ایسا معاشرہ نایاب ہے اور اس کے ادراک کی شرط بہت ہی مخصوص تاریخی حالات کا ہونا ہے۔

 

انفرادی فکر و عمل

ابو نصر 941ء (330 ہجری)  میں دمشق گئے اور حلب کے حکمران سیف الدولہ ہمدانی سے جا ملے اور اس کے درباری علماء میں شامل ہوگئے۔ فارابی کا انتقال دمشق میں 949ء (338ھ) میں اسی سال کی عمر میں ہوا۔ اسلامی مورخین کا خیال ہے کہ فارابی ایک پرہیزگار، زاہد اور انفرادی فکر و عمل والا شخص تھا۔ دنیاوی معاملات سے ان کی دوری اس حد تک تھی کہ سیف الدولہ نے بیت المال سے ان کے لیے بڑی تنخواہ مقرر کر رکھی تھی، لیکن وہ روزانہ چار درہم پر ہی اکتفاء کرتے تھے۔ فارابی کی زندگی اور علمی آثار کا مطالعہ کرنے والے لوگوں میں مہدی الٰہی قمشہ ائی، نصر اللہ حکمت، رضا داوری اردکانی، غلام رضا جمشید نژاد اول اور مہدی برکشلی قابل ذکر ہیں۔ 21 نومبر، ایران کے قومی کیلنڈر کے مطابق 30 آبان کو اس عظیم حکیم اور فلسفی کی یاد میں  یوم"فارابی" منایا جاتا ہے۔

نام فارابی
ملک ایران
عرفیتمعلم ثانی (دوسرا استاد)
تصنیف کا سال259ھ
موسیقی کبیر (بڑی موسیقی) آراء اهل المدینة الفاضله (مدینہ کے فضلاء کی آراء) احصاء العلوم الاحصاء و الایقاعات

---- [مزید]

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: