علامہ اقبال اور محمد تقی بہار ملک الشعراء نے لوگوں کو اتحاد، عظمت، تبدیلی کا پیغام دیا، حاجی لشکری
علامہ اقبال اور ملک الشعراء بہار کے افکار میں ملت اسلامیہ کے درمیان دوستی کا فروغ
تقریب کے مہمان خصوصی UK سے آئے ہوئے معروف مصنف اور دانشور اور ماہر اقبالیات جناب'' محمد عارف خان'' صاحب تھے جبکہ صدارت بلوچستان پیس فورم کے چئیرمین اور سینئر سیاست دان '' جناب نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی'' نے کی.
12 نومبر 2022
حکیم الامت، شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ لاہوری اور ان کے مشہور ہمعصر ایرانی شاعر محمد تقی بہاؔر (المعروف ملک الشعراء بہاؔر) کے علمی خدمات کے اعتراف میں اور ان دو عظیم مفکرین کے مشترکہ افکار اور ان کا ایک دوسرے کے درمیان گہرے روحانی رشتے کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئٹہ میں خانہ فرہنگ ایران میں ایک عظیم الشان ادبی کانفرنس کا اہتمام ؛ ''اقبال لاہوری اور ملک الشعراء بہار کے افکار میں ملت اسلامیہ کے درمیان دوستی کا بندھن'' کے عنوان سے کیا گیا
تقریب کے مہمان خصوصی UK سے آئے ہوئے معروف مصنف اور دانشور اور ماہر اقبالیات جناب'' محمد عارف خان'' صاحب تھے جبکہ صدارت بلوچستان پیس فورم کے چئیرمین اور سینئر سیاست دان '' جناب نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی'' نے کی.
تقریب میں الحمد اسلامک یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر شکیل احمد روشن اور انکے علاوہ جناب منیر بادینی، وحید زہیر، سرور جاوید، صدف چنگیزی، ڈاکٹر شاہ محمود شکیب اور اہل علم و ادب کی کثیر تعداد نے شرکت کیں۔
علامہ اقبال اور محمد تقی بہار ملک الشعراء نے لوگوں کو اتحاد، عظمت، تبدیلی کا پیغام دیا، حاجی لشکری
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان پیس فورم کے سربراہ سینئر سیاستدان سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ علامہ اقبال اور محمد تقی بہار ملک الشعراء نے لوگوں کو اتحاد، عظمت، وقار، تبدیلی کا پیغام دیا وہ مفلوج کمزور اور محکوم اقوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے تھے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ ان کے افکار ونظریات پر عمل کرکے اپنے درمیان اتحاد واتفاق قائم کرنا ہے۔
کانفرنس سے معروف دانشور و مصنف ڈاکٹر محمد عارف خان، ڈاکٹر شکیل روشن، ممتاز دانشور منیر احمد بادینی، ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران سید حسین تقی زادہ واقعی، معروف شاعر، مصنف و دانشور عبدالقیوم بیدار، ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی، سرور جاوید، صدف چنگیزی، وحید زہیر، شاہ محمود، شکیب اکبر ساسولی و دیگر نے بھی خطاب کیا.اس موقع پر بلوچی اکیڈیمی کے چیئرمین سنگت رفیق بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے.
۔نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ علامہ اقبال کی پیدائش اور وفات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب ہندوستان میں ایک طرف نو آبادیاتی نظام تھا اور ساتھ ہی مسلم امت کا اتحاد خلافت زوال پذیر تھا، علامہ اقبال جب یورپ پڑھنے گئے تو انہوں نے اپنے لوگوں اور ترقی کی راہ پر گامزن لوگوں کا موازنہ کیا ہوگا یہاں سے ان میں مسلم امہ کو جوڑکر ایک خوشحال اور ترقی یافتہ سماج کی تشکیل کا احساس پیدا ہوا، علامہ اقبال کے اندر سب کو یکجا کرنے کا ایک خواب تھا کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اسلامی دنیا ایک محکومی سے گزر رہی ہے وہ اس کو بچانے کی کوشش کررہے تھے،ہم نے علامہ اقبال نہ اقبالیات کے ساتھ انصاف کیا ہم نے علامہ اقبال کو ایک خواب تک لاکر محدود کیا حالانکہ وہ پوری اسلامی دنیا میں ایک ایسے نظام کے خواہاں تھے جہاں عدل و انصاف ہو، لوگ وقار اور خودی کیساتھ زندگی گزاریں علامہ اقبال چاہتے تھے کہ خوشحالی آئے، محکومی نہ ہو وہ اسلامی دنیا کی آزادی چاہتے تھے مگر ان کی فکر کو جدید نو آبادیاتی نظام کیلئے استعمال کیا گیا جو علامہ اقبال اور ان کی فکر کیساتھ زیادتی ہے علامہ اقبال کی فکر آزادی کیلئے تھی۔
انہوں نے کہا کہ ملک الشعرا محمد تقی بہار نے کثیر الفکری پارلیمانی نظام کیلئے جدوجہد کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ نظام میں لوگ بات چیت نہیں کریں گے وہاں خون ریزی ہوگی، انہوں نے کہا کہ جدید دنیا میں عراق، شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں ڈائیلاگ نہ ہونے سے خون ریزی ہوئی، محمد تقی بہار چاہتے تھے کہ مکالمے کے ذریعے ایران کو آگئے بڑھائیں، ملک الشعراء محمد تقی بہار ایک شاعر، صحافی اور سیاست دان تھے جنہوں نے پارلیمنٹ میں جاکر کوشش کی کہ مطلق العنانیت کے اختیارات کو محدود کیا جائے تاکہ ڈائیلاگ شروع ہو اور ایران ایک نئے دور میں داخل ہوجائے انہوں نے مطلق العنانیت کے خلاف عوامی قومی ترانہ بنایا، وہ لوگوں کو خوشحالی اور جدوجہد کا پیغام دیتے تھے
تقریب کے دوران بلوچستان میں فارسی شاعری کے حوالے سے شائع ہونے والی نئی کتاب ''سخن دل؛ تذکرہ شعرائے فارسی گوء ایالت بلوچستان'' کی رونمائی منعقد ہوئی۔ پروگرام کے آخر میں علامہ اقبال سے متعلق فارسی اردو کتابوں کی نمائش کا بھی انعقاد کیا گیا.
اپنا تبصرہ لکھیں.