شام کے شجاع جوان، صیہونیوں کو شام سے نکال باہر کریں گے
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اتوار 22 دسمبر 2024 کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کے موقع پر ملک بھر سے آئے ہوئے ذاکرین، خطباء، مداحوں، شاعروں اور مختلف عوامی طبقات سے ملاقات کی۔

اس موقع پر انھوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو حق کی راہ میں قیام، استقامت، شجاعت، کھل کر بولنے اور استدلال کی طاقت میں پوری انسانیت کے لیے ایک مکمل آئیڈیل بتایا اور دشمن کی جانب سے خوف، اختلاف اور مایوسی پھیلانے کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شیطان کے پیروکاروں کی خاصیت، دروغگوئی اور بڑبولاپن ہے اور اس کا علاج حقائق بیان کرنا اور تشریح کا جہاد اور قابل قبول منطق پیش کرنا ہے۔
رہبر انقلاب نے حماس اور حزب اللہ کو جڑ سے ختم کر دینے کے صیہونی حکومت کے کسی بھی ہدف کے پورا نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے کی باشرف اقوام اللہ کے فضل سے منحوس صیہونی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دیں گی اور علاقے کا مستقبل بہتر بنائیں گی۔
انھوں نے شام سمیت خطے کے مسائل کے بارے میں کچھ نکات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک شر پسند گروہ غیر ملکی حکومتوں کی مدد، سازش اور منصوبہ بندی سے شام کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور اس ملک کو انارکی میں دھکیلنے میں کامیاب ہو گیا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے کچھ عرصے پہلے کے بیان کی طرف اشارہ کیا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ خطے کے ملکوں کے لیے امریکا کا دو نکاتی حربہ ہے یعنی تسلط پسندانہ نظام کے پٹھو کسی فرد کی آمرانہ حکومت قائم کرنا اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس ملک میں ہنگامہ آرائی شروع کرا دینا۔ انھوں نے کہا کہ شام میں ان کی سازش، ہنگامہ آرائی اور انارکی پر منتج ہوئی اور اس وقت امریکا، صیہونی حکومت اور ان کے ساتھی، فتح محسوس کرتے ہوئے شیطان کے پیروکاروں کی طرح ہرزہ سرائی کر رہے ہیں اور بڑبولے پن کا شکار ہو گئے ہیں۔
انھوں نے ایک امریکی عہدیدار کے ڈھکے چھپے الفاظ میں کہی گئی اس بات کو کہ جو بھی ایران میں ہنگامہ آرائی کرے گا اس کی مدد اور حمایت کی جائے گی، دشمن کی ہرزہ سرائی اور بڑبولے پن کی ایک مثال بتایا اور کہا کہ ایرانی قوم، ہر اس شخص کو، جو اس مسئلے میں امریکا کا پٹھو بننا قبول کرے گا، اپنے مضبوط پیروں سے کچل دے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صیہونیوں کے فتح ظاہر کرنے، رجز خوانی اور بڑبولے پن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ فتح ہے کہ تم نے چالیس پینتالیس ہزار لوگوں کو بم سے قتل کر دیا لیکن جنگ کی شروعات میں اپنے اعلان کردہ اہداف میں سے ایک بھی حاصل نہیں کر پائے؟ کیا تم نے حماس کو ختم کر دیا اور غزہ سے اپنے قیدیوں کو چھڑا لیا؟ کیا تم سید حسن نصر اللہ جیسی عظیم شخصیت کو شہید کر دینے کے بعد بھی حزب اللہ لبنان کو ختم کر پائے؟
انھوں نے حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی سمیت خطے میں مزاحمت کو زندہ اور ارتقائی حالت میں بتایا اور صیہونیوں سے کہا کہ اس بنا پر تم فاتح نہیں ہو بلکہ تمھیں شکست ہوئی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے شام میں صیہونیوں کی پیشقدمی اور اس کے بعض علاقوں پر قبضے کو ان کے مقابلے میں کسی ایک سپاہی کی جانب سے بھی استقامت نہ دکھائے جانے کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ بغیر رکاوٹ کے یہ آگے بڑھنا فتح نہیں ہے البتہ یقینی طور پر شام کے غیور اور شجاع جوان، تمھیں وہاں سے نکال باہر کریں گے۔
انھوں نے خطے کے بارے میں ایک اور اہم مسئلہ کا ذکر کیا کہ یہ پروپیگنڈا اور نفسیاتی حملہ کیا جا رہا ہے کہ ایران اپنی پراکسی فورسز کھو چکا ہے۔
رہبر انقلاب نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ کی کوئی پراکسی فورس نہیں ہے، کہا کہ یمن، حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی اس لیے لڑ رہے ہیں کہ وہ باایمان ہیں اور ان کا عقیدہ اور ایمان کی طاقت انھیں مزاحمت کے میدان میں لے کر آئی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اگر کسی دن اسلامی جمہوریہ نے کوئی قدم اٹھانا چاہا تو اسے کسی پراکسی فورس کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ یمن، عراق، لبنان، فلسطین اور ان شاء اللہ مستقبل قریب میں شام کے مومن اور باشرف لوگ، مظالم اور جرائم اور مسلط کی گئی صیہونی حکومت سے جنگ کر رہے ہیں، اسلامی جمہوریہ بھی جنگ کر رہی ہے اور پروردگار عالم کی مرضی سے ہم اس حکومت کو اس علاقے سے ختم کر دیں گے۔
انھوں نے سنہ اسّی کے عشرے میں لبنان کے ہنگاموں اور خانہ جنگی سے حزب اللہ کے سر ابھارنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان خطروں اور بدامنی سے حزب اللہ لبنان جیسی عظیم فورس نے سر ابھارا اور سید عباس موسوی جیسے اس کے بڑے رہنماؤں کی شہادت جیسے واقعات نے بھی نہ صرف یہ کہ اسے کمزور نہیں کیا بلکہ مزید مضبوط بنایا اور مزاحمت کا آج اور کل بھی ایسا ہی ہوگا۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ اگر ہوشیاری ہو، ذمہ داری کا احساس ہو اور فرائض پر عمل کیا جائے تو خطروں سے بھی مواقع تیار کیے جا سکتے ہیں اور خطے کا مستقبل اس کے حال سے بہتر ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ شام میں بھی ایک مضبوط اور باشرف گروہ سامنے آئے گا کیونکہ آج کے شامی جوانوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور ان کے اسکول، یونیورسٹی، گھر اور سڑک ہر جگہ بدامنی ہے بنابریں انھیں بدامنی کی سازش تیار کرنے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کے خلاف مضبوط قوت ارادی کے ساتھ ڈٹ جانا چاہیے اور ان پر غلبہ حاصل کر لینا چاہیے۔
انھوں نے اسی طرح اپنے خطاب کے ابتدائی حصے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی پوری زندگی، خاص طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد کی ان کی مختصر سی حیات، حقائق اور دین کی مستحکم بنیادوں کی لگاتار تشریح سے مملو تھی اور یہ چیز ایسا آئیڈیل اور اوج ہے کہ جس تک نہیں پہنچا جا سکتا لیکن لگاتار اس کی سمت آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہرا کی خصوصیات کو آئیڈیل بنانا، اس منفرد شخصیت کی شفقت حاصل کرنے کا راستہ ہے اور ان میں سے ایک اہم خصوصیت، حقائق کو لگاتار بیان کرتے رہنا ہے اور اہلبیت کی مدح خوانی درحقیقت، بیان اور تشریح کے اس جہاد کا تسلسل ہے۔
انھوں نے آج کے مسائل کی تشریح کو ایک حقیقی ضرورت بتایا اور شکوک و شبہات پیدا کرنے اور حقائق میں تحریف کرنے کی دشمن کی واضح اور پوشیدہ سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اہلبیت کی مدح اور ان کا ذکر کرنے والے ان افراد میں سے ہیں جو تشریح اور بیان کا جہاد کر کے، آگہی و امید پیدا کر کے اور لوگوں کو سرگرم بنا کر دشمن کا مناسب اور مؤثر جواب دے سکتے ہیں۔
انھوں نے خوف پھیلانے، اختلاف پیدا کرنے اور مایوسی پھیلانے کو دشمن کے اسلام اور ایران مخالف اہداف کا مثلث قرار دیا اور کہا کہ شیطان کا اصل حربہ خوف پیدا کرنا ہے اور شعر و ادب اور فکر کے میدان میں کام کرنے والوں کو دلنشیں منطق کے ساتھ لوگوں تک شجاعت، آگہی اور استقامت منتقل کرنی چاہیے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.