کتاب شکستہ آرزوئیں کی رونمائی کا پروگرام
اسلام آباد - انٹر نیٹ پر معلومات کے سیلاب کے باوجود آج بھی کتاب کی اہمیت برقرار ہے ۔ ان خیالات کا اظہار سفیر اسلامی جمہوریہ ایران، ڈاکٹر رضا امیری مقدم نے ادارۂ فروغِ قومی زبان، اسلام آباد میں قیصر امین پور کے منتخب کلام کے اُردو ترجمہ "شکستہ آرزوئیں" کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ دونوں مترجمین کا کام نہایت شاندار اور قابلِ تحسین ہے۔ اُردو ادب کا بھی فارسی ترجمہ ہونے کی ضرورت ہے جس کے لیے میں پر امید ہوں۔
ڈائریکٹر جنرل، ادارۂ فروغِ قومی زبان پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے سفیر ایران، مترجمین اور دیگر شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قیصر امین پور انقلاب کے نمایاں ترین شاعروں میں سے ہیں۔ ہمیں اہل علم کو صحیح معنوں میں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ مزید کام کرنے کی جانب راغب ہوں۔
سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی قونصلر ڈاکٹر مجید مشکی نے کہا کہ اشعار کا ترجمہ کرنا بے حد مشکل ہے لیکن مذکورہ مترجمین نے نہایت دل جمعی اور عمدگی سے یہ کام کیا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے۔ کیونکہ شاعری میں ترجمہ کرتے ہوئے ادب ، ثقافت، وزن اور مضمون کو برقرار رکهنا بہت مشکل کام ہے۔
کتاب کے مترجم ڈاکٹر مہر نور محمد خان نے قیصر امین کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا شمار ایران کے جدید شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ شاعر، ادیب، محقق، فرہنگستان کے کارکن اور دانش گاہ تہران یونیورسٹی کے استاد تھے۔ انھیں جنگ و جدل سے نفرت اور برادارانہ عشق سے قربت تھی ۔کتاب کے دوسرے مترجم ڈاکٹر مظفر علی کشمیری نے کہا کہ قیصر امین پور نے 48 سال کی عمر پائی اور اتنی کم عمر میں وہ نو کتابوں کے مصنف تھے جن میں سے پانچ کتابوں کے عربی، فارسی، روسی اور اب اُردو میں تراجم ہو رہے ہیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹرمحی الدین ہاشمی نے کہا کہ ہماری تہذیب، زبان اور علمی سرمائے کا بڑا حصہ فارسی زبان پر مشتمل ہے۔ نمل یونیورسٹی کے پاکستانی زبانوں کے شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر عابد سیال نے کہا کہ فارسی کے ایک اچھے شاعر کا کلام اُردو میں متعارف کروانے کا سہرا میرے اساتذہ کے سر ہے۔
ڈاکٹر امبر یاسمین صدر شعبہ فارسی نمل یونیورسٹی نے کہا کہ اُردو میں فارسی کے کلاسک ادب کا ترجمہ تو موجود تھا مگر معاصر کا بہت کم تھا جناب مترجمین نے خوبصورت الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے اُردو میں بہت اچھا ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر شگفتہ یاسین نے کہا کہ قیصر امین پور مرنے کے بعد بھی اپنی شاعری کی وجہ سے زندہ ہیں ۔ اس کتاب کا ترجمہ کرنے والے دونوں مترجمین میرے اساتذہ ہیں اور سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر راشد حمید نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ پاکستان کے مضبوط تعلقات ہیں۔ فارسی کا کلاسک ادب کئی مرتبہ اُردو میں ترجمہ ہو چکا ہے کیونکہ ترجمہ ہی دراصل دونوں ممالک کے ادب و ثقافت کو قریب لانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔
تقریب کی نظامت ڈاکٹر رابعہ کیانی نے کی۔ آخر میں ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے ادارے کی جانب سے سفیر اسلامی جمہوریہ ایران ڈاکٹر رضا میری مقدم، ثقافتی قونصلر ڈاکٹر مجید مشکی اور کتاب کے مترجمین ڈاکٹر مہر نور محمد خان اور ڈاکٹر مظفرعلی کشمیری کو گلدستے پیش کیے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.