سید حسن مدرس

سید حسن مدرس

سید حسن مدرس

آیت اللہ سید حسن مدرس کا نام ظلم کے خلاف جدوجہد کی یاد دہانی ہے۔ آپ کی ولادت 1870ء (1249ھ) میں طباطبائی سادات کے ایک گھرانے میں ہوئی جو اصفہان کے علاقے سرابہ کے مضافات میں "زوارہ اردستان" میں مقیم تھا۔ مدرس 16 سال تک اپنے آبائی گھر میں رہے اور پھر اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اصفہان چلے گئے۔1891ء ( 1270شمسی) میں عراق گئے اور آیت اللہ مرزا حسن شیرازی، ملا محمد کاظم خراسانی اور سید محمد کاظم یزدی جیسے مشہور علماء سے تعلیم حاصل کی اور آٹھ سال کی تعلیم کے بعد اجتہاد کی ڈگری حاصل کی۔1899 ء (1278شمسی) میں ایران واپس آئے اور اپنے آبائی شہر اصفہان میں تدریس شروع کی۔

سید حسن مدرس ایران کے آئینی دور میں

دوسری پارلیمنٹ میں سیاسی اور پارلیمانی سرگرمیوں کے میدان میں مدرس کی انٹری باضابطہ انٹری تھی۔ چنانچہ اسوقت، آئین کےدوسرے باب کی ترمیم کے مطابق، نجف اشرف کے مراجع عظام نے سید حسن مدرس سمیت 20 اول درجے کے مجتہدوں کو قومی اسلامی جمہوریہ ایران کی اسمبلی میں متعارف کرایا، تاکہ ان میں سے پانچ کا انتخاب کیا جاسکے۔ 5 جولائی 1909ء ( 14 تیر، 1288 شمسی) کے اجلاس میں، ایران کی قومی اسمبلی نے ریگولیٹری نفاذ کے کاموں کو انجام دینے کے لیے مدرس اور دیگر چار افراد کو منتخب کیا۔ مدرس کا موقف دوسری پارلیمنٹ کی مدت کے اختتام پر اس کی سخت تقاریر بشمول روسی حکومت کے امریکی مورگن شسٹر کو بے دخل کرنے کے الٹی میٹم کے خلاف تھا، جو ناصر الملک کے ہاتھوں اس پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کی قیمت پر ختم ہوا۔ مدرس تیسری مدت میں تہران کے عوام کے نمائندے کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، لیکن اس پارلیمنٹ کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا، جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی اور ایران کے غیر جانبداری کے اعلان کے باوجود یہ جنگ ایران کی سرزمین تک پھیل گئی۔ مدرس کی تجویز اور پارلیمنٹ کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ عوامی نمائندوں کا ایک گروپ جارح قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حوزہ علمیہ قم کی طرف ہجرت کرے گا جہاں مرکزی حکومت کے ساتھ ایک سایہ دار حکومت تشکیل دے گا۔اسی مقصد کے لیے پارلیمنٹ کے ستائیس ارکان کا ایک گروہ، سیاست دانوں اور عام لوگوں کے ایک گروپ کے ساتھ تہران سے حوزہ علمیہ قم کے لیے روانہ ہوا۔ تہران سے ہجرت کرنے والوں نے  حوزہ علمیہ قم میں"قومی دفاعی کمیٹی" کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ لیکن روسی فوج کے ایک پلٹون کی پیش قدمی کی وجہ سےمہاجرین تہران شکست کے بعد سلیمان مرزا اور مدرس کے ہمراہ ایک گروہ کی صورت میں کاشان کے راستے اصفہان اور پھر بختیاری کے پہاڑوں کے راستے ایران کے مغرب میں چلے گئے۔ 1918ء (شعبان 1336 ہجری قمری ) میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مدرس دو سال کے بعد دوسرے مہاجرین کے ساتھ تہران واپس آئے اور سپاہ سالار اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔

سید حسن مدرس کی رضا خان پہلوی سے مخالفت

مدرس نے 1911ء ( 1290ھ شمسی) میں سپہ سالار ہائی سکول (حالیہ شہید مطہری سکول ) کا چارج سنبھالا اور اس سکول میں پڑھانا شروع کیا۔ بعد کے ادوار میں، مدرس کی مہمات نے ایک مختلف شکل اختیار کی، اور آپ نے قوم کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بار بار اقتدار میں موجود لوگوں کی مخالفت کی، آپ نے صمصام سلطانہ بختیاری، کی حکومت کے خلاف احتجاج میں حضرت عبدالعظیم (ع) کے مزار پر دھرنا دیا۔ 1919ء کے معاہدہ نوآبادیات کی مخالفت اور وثوق الدولہ، رضا خان کی برطانوی بغاوت اور رضا خان کی جمہوریت کے خلاف احتجاج ان اقدامات میں شامل ہیں۔ رضا خان پانچویں پارلیمنٹ کے انتخابات میں فوج کی حمایت سے اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ میں لانے میں کامیاب ہوا اور پہلے قدم پر اس نے ایران کی شاہی حکومت کو جمہوری حکومت میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے کو شامل کیا۔ مدرس نے رضاخانی جمہوریت کی حقیقت آشکار کرنے کی غرض سے بہت سے سارے مکتوبات قم کے علمائے کرام نام انکی آگاہی کیلئے لکھے۔  قم کے دورے کے بعد، سپاہ کے سرادر نے علماء کی خواہش کے مطابق نام نہاد جمہوری عہدہ سے دستبرداری کے بعد اپنے باضابطہ سردار سپاہ ہونے کا اعلان کیا۔ چیلنجز جاری رہے اور مدرس نے تسلیم کیا کہ واحد حل وزیراعظم کا مواخذہ کرنا ہے۔ 29 جولائی 1924ء (7 مرداد 1303 شمسی) کو انہوں نے چھ نمائندوں کے ساتھ مل کر رضا خان کو خراب ملکی حالت، خارجہ اور داخلہ پالیسی کی ناقص کاکردگی، آئین اور آئینی حکومت کے خلاف بغاوت اور مجرموں کی جائیداد حکومت کے حوالے نہ کرنے جیسے اقدامات کی بنیاد پر مواخذہ کیا، لیکن آپ کا یہ اقدام بے مقصد رہا اور سپہ سالار کو اعتماد کا ووٹ مل گیا۔

سید حسن مدرس کی جلاوطنی اور شہادت

آخر کار، مرکزی حکومت کے خلاف مدرس کی مخالفت کی وجہ سے رضا خان پہلوی کے افراد کی جانب سے آپ کے ناکام قتل کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ رضا خان نے ساتویں مجلس میں مدرس کے داخلے کی کھل کر مخالفت کی اور اسے 8 اکتوبر 1928ء ( 16 مہر 1307 شمسی) کو گرفتار کر کے دمغان، مشہد اور پھر خواف میں جلاوطن کر دیا۔ مدراس کو کئی سالوں تک پولیس افسروں کی نگرانی میں رکھا گیا یہاں تک کہ انہیں 2214 اکتوبر1937ء ( مہر 1316 شمسی) کو کاشمر منتقل کر دیا گیا اور اسی سال کے دسمبر( شمسی مہینے آذر) میں انہیں ایک پولیس افسر مرزا کاظم جہانسوزی، اور دو دیگر پولیس افسروں نے قتل کر دیا اور آپ اسی شہر میں دفن ہیں۔ آپ کی شہادت کے موقع پر ایرانی قومی کیلنڈر کے مطابق یکم دسمبر ( 10آذر شمسی) کو "یوم پارلیمنٹ" کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

نام سید حسن مدرس
ملک ایران
عرفیتمدرس
تصنیف کا سالبیسویں صدی عیسوی (تیرویں صدی شمسی)
کتاب (کفایۃ ‌ الاصول) کتاب (رسائل الفقہیہ) ترتب میں رسالہ‌ شرط متاخر میں رسالہ عقود اور ایقاعات کے موضوع پر رسالہ موقوفات کے موضوع پر (لزوم اور عدم لزوم قبض) کے عنوان سے رسالہ مرحوم آیت‌الله شیخ محمدرضا نجفى، مسجدشاه کی (کتاب النکاح) پر حاشیہ
Yard periodthe past

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: