شاهنامہ فردوسی
اس کتاب میں کیومرث کے زمانے سے لے کر تیسرے ساسانی بادشاہ یزدگرد (ر. 632-651 عیسوی) کے دور تک ایران کی افسانوی، بہادری اور تاریخی داستانیں شامل ہیں۔
فردوسی نے 940 – 1025ع کے آس پاس ابو منصوری کی شاہنامہ (336ھ) کی ایک نقل حاصل کر کے اس کی ترتیب شروع کی۔ انہوں نے شاہنامہ کا پہلا نسخہ 994ء میں مکمل کیا اور 1010ء میں چوتھا اور آخری نسخہ مرتب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ فردوسی نے غزنی کے سلطان محمود کے وزیر ابو العباس فضل بن احمد اسفرائینی کے ذریعے سلطان محمود غزنوی کواپنا کام پیش کیا، لیکن اس سے مناسب اجرنہ ملنے کی وجہ سے غزنی کو چھوڑ کر خراسان چلا گیا۔ شاہ نامہ کے ماخذ، ابو منصوری شاہ نامہ کے علاوہ، اوستا، بندھش اور دیگر کئی ماخذ ہیں۔
شاہنامہ کو فارسی زبان کی فصاحت و بلاغت کا خزانہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ سادہ اورواضح ہے۔ فردوسی کی شاہنامہ کے مندرجات کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1- افسانوی دور، یعنی کیومرث، ہوشنگ، تہمورث، جمشید، ضحاک کے دور سے فریدون کی آمد تک
2- پہلوانی کا دور، کاوہ کی بغاوت سے لے کر رستم کے قتل اور اس کے بھانجے اسفنديار تک کی سلطنت تک
3- سکندر سے اسلام تک کا تاریخی دور
یہ منظومہ جو فارسی ادب کی اعلیٰ ترین ثقافتی اقدارمیں سے ایک ہے، جو عالمی ادب کے شاہکاروں میں ایک مضبوط اور شاندار مقام رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فردوسی ایرانی قوم کے وقار کا علمبردار ہے اور شاہنامہ ایران کے تاریخی اور قومی تشخص کی مستند ترین دستاویز ہے۔
شاہنامے کے مشہور تراجم میں عربی میں بندری اصفہانی، جرمن میں فریڈرک وان شاک اورفرانسیسی میں جولس مول شامل ہیں۔ کارل ہرمن ایٹے، تھیوڈور نولڈیکے ہیں۔ نکولس ٹروبنر نے بھی فردوسی اور شاہنامے پر قابل قدر تحقیق کی ہے۔
نام | شاهنامہ فردوسی |
ملک | ایران |
مصنف | حکیم ابو القاسم علی طوسی |
تصنیف کا سال | 1010 عيسوی |
Template | Organized |