امام خمینیؒ کی 33ویں برسی پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب کے اہم نکات
امام خمینیؒ کی زبان ذوالفقار کی مانند تھی، مقام معظم رھبری
جو چیز انقلاب اسلامی کو دیگر انقلابوں سے متمایز کرتی ہے وہ اس انقلاب میں لوگوں کا معنوی شرکت ہے
امام خمینیؒ کی 33ویں برسی پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب کے اہم نکات
04 جون 2022
"امام خمینی نے تاریخ انسانیت میں رونما ہونے والے سب سے بڑے انقلابوں میں ایک انقلاب کی قیادت کی. لیکن انقلاب اسلامی انقلاب فرانس اور انقلاب روس سے بھی بڑی انقلاب ہے. اس کی دو وجوہات ہے. ایک یہ کہ سویت اور فرانس کے انقلاب، عوام کے ذریعے کامیابی سے ہمکنار ہوئی لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد عوام کو اقتدار سے ہٹا کر دیوار سے لگایا گیا اور عوام کے عمل دخل کو انقلاب سے بالکل ختم کردیا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ دونوں انقلاب اپنے اصلی راستے اور نصب العین سے ہٹ گئے. فرانس کا انقلاب بارہ تیرہ سال کے بعد دوبارہ سلطنت میں تبدیل ہوگیا. سویت یونین کا انقلاب بھی اپنے بارہ سال تک نہ پہنچ سکے۔ یہ انقلاب بھی عوام کا لایا ہوا تھا لیکن چند سالوں بعد ڈکٹیٹرشپ میں بدل ہوگیا اور ظلم و استبداد کا بازار گرم ہوا اور لوگوں کا ملک سے اختیار بالکل ختم ہوگیا۔ لیکن انقلاب اسلامی ایران جو عوام کی محنت اور جدوجہد سے کامیاب ہوئی تھی، اس کامیابی کے بعد عوام کو دیوار سے نہیں لگایا گیا . انقلاب کی کامیابی کے ایک سال کے اندر عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے ملک کیلئے صدر کا انتخاب کیا اور ایوان ہائے مجریہ و مقننہ عوام کی رائے سے بنی. اس دور سے اب تک ایران میں چالیس پچاس انتخابات ہوئے ہیں۔ یہ اس انقلاب کی عظمت ہے اور امام خمینی اس انقلاب کے بانی تھے.
امام کی قیادت اس انقلاب کی برکت کا صرف ایک پہلو ہے. جو چیز انقلاب اسلامی کو دیگر انقلابوں سے متمایز کرتی ہے وہ اس انقلاب میں لوگوں کا معنوی شرکت ہے۔ فرانس، روس اور دیگر انقلابو ں میں معنویت کا بہت بڑا اور اہم خلاء موجود تھا۔ وہ معنویت جو انسانی معاشرے کی اکائی ہے ان انقلابوں میں اس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا. لیکن انقلاب اسلامی انسان کے مادی اور معنوی دونوں پہلوؤں کو مخاطب کرتے ہیں۔ امام خمینی اس انقلاب کے بانی اور اس تحریک کے روح رواں تھے. اس میں کوئی شک نہیں کہ انقلاب اسلامی کو لوگوں نے کامیاب بنایا لیکن جو طاقتور ہاتھ جس نے اس دریا کو تلاطم میں بدل دیا اور لوگوں کے اندر جوش اور ولولہ ایجاد کیا وہ ہاتھ کس کا تھا؟۔ یہ ایک اہم سوال ہے. یہ وہ شخص تھا، یہ وہ استقامت رکھنے والا مرد مجاہد اور ذوالفقار کی زبان رکھنے والا قائد تھا جس نے عوام کو میدان میں لایا اور انہیں میدان میں رکھا، اس عنصر اور اس شخصیت کا نام عظیم خمینیؒ تھا جنہوں نے عوام کو میدان میں لایا اور ان کی رہنمائی کی اور ان کی مایوسی ختم کردی۔ اس ملک میں کسی اور انسان کے درمیان یہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں موجود نہیں تھی. یہ صرف اور صرف امام خمینیؒ کی مرہون منت تھی. امام خمینیؒ نے کئی میدان میں عوام کی رہنمائی کی. خونی ایام کے گرما گرم ماحول میں جب رجیم اپنی آخرین سانس لے رہے ہیں او ر پہلوی حکومت ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کے درپے تھے اور لوگوں کو گھروں میں محصور کرکے اس تحریک کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے مگر امام نے قوت الہی سے لوگوں کو سڑکوں پر لایا. کیونکہ عوام کا سڑکوں پر آنا اس دور کا تقاضا تھا ۔ پہلے مہینے میں امام نے عوام کو سڑکوں پر لاکر میدان جنگ کا تعین کیا اور انقلاب کی کامیابی کے دوسرے مہینے میں ہی ریفرنڈم کے ذریعے اسلامی حکومت کا نفاذ کرکے اپنے قوم کے درست سمت کا تعین کیا۔ اسی طرح مسلط شدہ آٹھ سالہ جنگ میں بھی امام نے عوام کی رہنمائی کی. حتی کہ امام نے اپنے جانے کے بعد اپنی وصیت کے ذریعے بھی قوم کے لئے میدان جنگ کا تعین کیا. اسی کہتے ہیں انقلاب کا اصل لیڈر .
امام کی ذاتی خصوصیات کی بات کی جائے تو وہ ایک ممتاز شخصیت کا حامل تھا. انکی ذاتی خصوصیات کو آپ کسی اور شخصیت کے اندر نہیں پاسکتے. وہ ایک پرہیزگار اور خاکی اور باتقوی انسان تھا. وہ معنوی اور عرفانی مقام کے مالک تھے جو ہر سحر اپنے معبود سے راز و نیاز اور گریہ و زاری کرتے تھے. وہ لطیف روح کے مالک تھے. امام کی کتابوں کو دیکھے تو پتہ چلے گا کہ وہ جوانی سے ہی اہل معرفت تھے.
اخلاقی لحاظ سے وہ حقیقی معنوں میں بہادر اور شجاع تھے. میں نے اب تک ان کے لبوں سے ڈرکا لفظ نہیں سنا. وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا.
وہ حکمت اور مصلحت کا پیکر تھا اور کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کرکرتے تھے اور بغیر جانچ پڑتال کے کوئی کام سرانجا م نہیں دیت تھے۔ وہ ہرگز مایوس نہیں ہوتے تھے. مختلف بڑے واقعات بھی ان کے دل میں ذرا سا بھی ناامید نہ لاسکے۔ وہ اپنے خدا سے بھی اور عوام سے بھی مخلص تھے اور اپنے وعدوں پر پابند تھے. انہوں کے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ میں حکومت بناؤں گا تو چار دن کے اندر اندر انہوں نے اپنا وعدہ نبھا لیا اور حکومت بنالی. وہ ایک منظم اور وقت کے پابند انسان تھے.
امام ایک جنگجو انسان تھے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ انہوں اللہ کی تعلیمات کو اپنا فریضہ اور ہدف سمجھ کر اس راہ میں جدوجہد کی اور یہ ہدف پہلوی یا امپورٹڈ حکومت کے زیر سایہ کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتا . پہلے انہوں نے پہلوی رجیم کا خاتمہ کیا اور پھر لوگوں کی رہنمائی کی۔
امام خمینی میں ڈر نام کی کوئی چیز نہ تھی اور وہ ہر بات صراحت کے ساتھ کہتے تھے اور لوگوں کو راستہ دکھاتے ہیں. ان کی زبان ایک ذوالفقار کی طرح تھی جنہوں نے یہ عظیم کام اس طرح انجام دیا۔ امام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ عوام پر بھروسہ کرتے تھے اور میدان عمل میں عوام کی حاضری اور جدوجہد پر یقین کامل رکھتے تھے. اور عوام کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ انہوں نے تحریک انقلاب میں عوام کا اعتماد حاصل کیا. اسی طرح اسلامی جمہوریہ کی حکومت کی تشکیل میں بھی امام کی کوشش اور ان کا روڈمیپ یہ تھا کہ ملک کی مستقبل کو گذشتہ سے مکمل طور پر جدا کیا جائے اور ملکی امور میں کئے گئے تما م فیصلے اور تمام تر تجاویز، مغربی جمہوریت کے زیرعتاب نہ آئے. امام نے لبرل ڈیموکریسی اور کمیونیزم کے نظریے کی مخالفت کی اور نہ شرقی نہ غربی کا شعار بلند کیا. وہ نہ مغربی آزادی کو مانتے تھے اور نہ مشرق میں پائے جانے والے محدود ذہنیت کو. بلکہ ایک جدید آئیڈیالوجی کو اسلامی معاشرے میں متعارف کرایا. امام نے نئے نظریے میں دینی معنویت اور عوام کی آراء کو یکجا کیا جو کبھی ایک دوسرے سے متضاد سمجھا جاتا تھا۔ امام نے ان دونوں کو ایک ہی پیرائے میں ڈال دیا یعنی معاشرے کی فلاح و بہبود اسلامی قوانین اور اصولوں کے مطابق انجام دینا جس میں کوئی ذائی مصلحت شامل نہ ہو. معاشی انصاف اور کمزوروں کی دادرسی، دولت پانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پروان چڑھایا اور نہ صرف ظلم بلکہ ظلم پذیری کے کلچر کو ختم کیا۔ یعنی نہ کسی پر ظلم کرنا ہے اور نہ کسی کے ظلم کا نشانہ بننا ہے. نہ بدمعاشی کرنا ہے اور نہ اپنے اوپر بدمعاشی ہونے دینا ہے. ملک کے اقتصاد کو بھی مضبوط بنانا ہے اور ملک کے دفاع کا سوچنا ہے. قومی اتحاد، مختلف اقوام کے آداب و رسوم کے احترام کے ساتھ ساتھ قائم کرنا ہے. امام کی کوشش تھی کہ ان دو متضاد سمجھا جانے والے عناصر کو ایک پیج پر کھڑا کردیں جس میں وہ کامیاب ہوا. یہ فارمولا جو امام نے دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے تمام میدان میں کامیابی حاصل کی. جمہوری نظام، سفارتکاری، معاشی اور عوامی فلاح و بہبود میں ہم نے کامیابی حاصل کی اور ترقی کی لیکن ساتھ ساتھ بعض کمزوریاں ہمارے اندر موجود تھی جس پر امام نے ہمیں رہنمائی کی۔ امام نے اپنے عمر کے آخری ایام میں کہا تھا کہ آپ کی کامیابی، آپ کی زحمات اور محنتوں پر منحصر ہے۔ مضبوط ارادے کے ساتھ جوبھی میدان میں آتا ہے وہ نصرت پاتا ہے. ہم اگر منصوبے کے تحت آگے بڑھے تو کامیابی پائیں گے. انقلاب کے آغاز سے ہی دشمن نے ہمارے خلاف وسیع محاذ کھول دیا تھا . اسلامی جمہوریہ سرے سے ہی دشمن کے استکباری سوچ کے خلاف ہیں. ہم منکرات کے مخالف ہے. انقلاب کے شروع سے ہی امریکا نے اپنے جنرلز کے ذریعے انقلاب کو ناکام بنانے کی کوشش ک مگر وہ اپنے مشن میں ناکام رہے. امام کو امریکی مداخلت قطعا پسند نہیں تھی.
ہمارے نوجوان نسل کو یاد رکھنا چاہئے کہ مغربیوں نے تین سو سال تک دنیا کو غارت کی۔ فلسطین، نیپال اور برصغیر سے لے کر، ایشیائے وسطی، مغربی غارتگری کا نشانہ بنیں۔ انہوں نے جنوبی امریکا کو بھی خوب لوٹا. مغربیوں نے اپنی سازشوں سے دنیا کو نیست و نابود کردیا۔ قتل و غارت اور غلام فروشی کا بازار گرم کیا اور اوپر سےانہی مغربیوں کے لیڈران نے انسانی حقوق کا ڈھونگ رچایا جو ان کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مغربی کلچر کی ایک مثال ہے اور یہی مغربیوں کا حربہ رہا ہے. اپنے مظالم کو چھپاتے ہیں اور دوسروں کو مظالم پر انسانی حقوق کا علم بلند کرتے ہیں۔ امام خمینی نے ایک نظریہ متعارف کرایا جس کے تحت ایرانی طرز زندگی کو مغربی طرز زندگی سے دور اورجدا رکھا جائے.
امام خمینی نے ایرانی قوم کو ایک کمزور اور بے حس قوم سے ایک مقاومت اور استقامت والی قوم بنا دی اور آج ایران اور بلندہمت اور استقامت والی قوم بن چکی ہے.
میں دشمنوں کی سازشوں سے آپ کو آشنا کرنا چاہتا ہوں جو اہمیت کا حامل ہے۔ آج دشمنوں کی سب سے بڑی امید ملک کے اندر ہونے والے مظاہرے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ نفسیاتی حربوں اور پروپیگنڈوں سے عوام کو اسلامی نظام کے خلاف کھڑا کردینگے۔ لیکن دشمن کی کیلکولیشن اس مسئلے بھی ان کی دیگر کیلکولیشنز کی طرح غلط ثابت ہوئے ہیں. جس طرح انقلاب کے آغاز میں وہ کہہ رہے تھے کہ انقلاب اسلامی چھ مہینوں سے زیادہ نہیں چلے گی۔ اس چھ مہینے کو اب 43 سال گزر چکے ہیں اور انقلاب اسلامی ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بالکل اسی طرح مسلط شدہ جنگ میں دشمن کی یہ خام خیالی تھی کہ وہ صدام کے توسط سے اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی عوام کو شکست دینگے. حالیہ مظاہروں میں بھی امریکیوں نے عوام کو حکومت کے خلاف کھڑا کرنے کا خواب دیکھا تھا چونکہ ان کے نزدیک یہ سب سے موثر حربہ ہے . لیکن عوام کو حکومت کے سامنے سینہ سپر کرانے کا یہ حربہ سب سے ناکام حربہ ثابت ہوا کیونکہ ایرانی عوام انقلاب کے شروع سے ہی اس انقلاب کی آئیڈیالوجی کو پوری طرح اپنے وجود میں سمائے ہوئے ہیں. جن کو میری اس بات پر شک ہے وہ قاسم سلیمانی کے تشییع جنازہ کو دیکھے جس میں کروڑوں افراد نے شرکت کی۔ یہ اس بات کی ایک دلیل ہے. اسی طرح مراجع عظام کے تشیع جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کرکے روحانیت اور علماء سے اظہار یکجہتی کیں اور ان سے اپنی بھرپور محبت کا اظہار کیا. اسی طرح آج کل جو نظم امام زمانہ علیہ السلام کیلئے بنی ہے وہ بھی ایک ٹرینڈ بن چکی ہے اور بھوڑے ، جوان ، بچے اس نظم کو ورد کرتے نظر آرہے ہیں. آج بہت بڑے بڑے مذہبی اجتماعات ہورہے ہیں۔ یہ سب عوام کی اس نظام حکومت اور انقلاب اسلامی سے محبت کی دلیل ہے. یہ عوام کی وفاداری اور مقاومت کا نمونہ ہے.
اپنے باتوں کے اختتام پر کچھ نصیحت کروں گا سیاسی، معاشی، انقلابی، معاشری اور اجتماعی میدانوں میں سرگرم افراد کو.! میری ایک نصیحت یہ ہے کہ انقلاب مخالف اور دشمن کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کی اس انقلاب کی شناخت کو مٹا دیں یا اسے غلط رنگ دینے کی کوشش کریں. دوسری نصیحت یہ ہے کہ امام خمینی کی یاد کو معاشرے میں ہمیشہ زندہ رکھیں اور اس یاد کو کمزور یا ختم ہونے نہ دیں بلکہ اس یاد کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔ تیسری نصیحت یہ کہ ارتجاعی عناصر کے اثر و رسوخ کو ملک میں داخل ہونے نہ دیں۔ ارتجاع یا مرتجع سے مراد وہ انسان ہے جو سیاست اور طرز زندگی میں مغربیوں سے متاثر ہو اور مغربی کلچر اپنائیں۔ پہلوی دور حکومت میں مرتجعین کی تعداد بہت زیادہ تھی جو مغربی کلچر سے لگاؤ رکھتے تھے، چاہے وہ فرانسیسی عطر لگانے تک ہی محدود ہو. یہ بھی ارتجاع کی ایک نشانی ہے. میری اگلی نصیحت یہ ہے کہ دشمن کے نفسیاتی اور پروپیگنڈا وار اور جھوٹ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے اور نفسیاتی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ کا نشانہ نہ بنے. دشمن کی نفسیاتی جنگ کی ایک مثال آپ کو بتاتا ہوں۔ یونان کے ساحل میں ایرانی تیل بردار جہاز کو چوری کیا جاتا ہے اور جب ایران اپنے ردعمل میں یونانی ٹینکرز کو اپنی تحویل میں لیتا ہے تو مغربی میڈیا اسے چوری کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں ہم نے اپنا چوری شدہ ٹینکر واپس لے لیا ہے۔ میری اگلی نصیحت یہ ہے کہ باایمان افراد کی صلاحیتوں کو اپنے معاشرے کی ترقی میں بروئے کار لائے اور ملکی امور میں صالح افراد کا انتخاب کریں۔ میری اگلی نصیحت یہ ہے کہ ان لوگوں کی سازشوں کو ناکام بنائے جو جانے انجانے میں سوشل میڈیا یا دوسرے پلیٹ فارمز کے ذریعے یہ واویلا مچاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران، دیوالیہ اور ناکامی کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ انہیں عوام کو مایوس نہ کرنے دیں۔ اگلی نصیحت یہ ہے کہ جس طرح امام خمینیؒ بعض جگہوں پر ملکی امور چلانے والے افسروں کی سرزنش کرتے وہیں ان کے اچھے کاموں پر ان کو شاباشی بھی دیتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور ہمیں بھی اس طرح کرنا چاہئے۔ جب صدر سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر امدادی کاروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے جس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور وہ جو کام بگاڑنے کے در پے ہوتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے. دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اسلامی جمہوریہ کے حقیقی پیروان میں شامل قرار دیں اور ہمیں اس راسے پر استوار رکھے"
اپنا تبصرہ لکھیں.