چاوش خوانی

چاوش خوانی

چاوش خوانی

 

چاوش ترکی زبان کا لفظ  ہے جس کا مطلب ہے فوج کا کمانڈر اورقافلے کا رہنما ہے ۔ اس قسم کی شاعری کو چاووش خوانی کہتے ہیں اور پڑھنے والے کو چاوش یا چاوش خوان کہتے ہیں۔ چاوش کا لفظ اتابکان اور ایلخان کے بعد کے زمانے میں استعمال ہوتا تھا، جس کے معنی کمانڈروں کا گروہ اور فوج اور فوج کے امور کو منظم کرنے کے ذمہ دار تھے۔ البویہ کے دور میں انہوں نے اس لفظ کو تقاریب کے معنی میں بھی استعمال کیا۔ صفوی دور میں یہ لفظ نقیب سلاطین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ نویں قمری صدی سے چھوڑے گئے فارسی ادبی حوالے کے مطابق، چاوش کو نقیب اور کارواں کے رہنما کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ صفوی دور سے یہ رسم حجاج کے لیے رائج ہے اور زمانہ قاجار میں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔

یہ رفتہ رفتہ اس قدر اہم ہو جاتا ہے کہ ایرانی ثقافت کی مذہبی روایات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ صفوی اور قاجار کے زمانے میں ایران آنے والے سیاحوں اور مستشرقین کے سفرناموں میں بھی ہمیں اس رسم کا حوالہ ملتا ہے۔

چاوش حج کے پورے راستے میں زائرین کے سامنے سفر کرتا ہے اور اس سفر کی منصوبہ بندی اور ذمہ داری بھی اسی پرہوتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک سبز تکونی پرچم ہوتا ہے جس پر عموماً مزارات کی تصویریں اور مناسب نعرے ہوتے ہیں۔ چاوش عوامی مقامات پر جھنڈا لگاتا ہے یا اسے اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے اور نظمیں پڑھ کر لوگوں کو زیارت کی دعوت دیتا ہے۔

اگر وہ سید ہو تو اپنے گردن کے گرد سبز رنگ کا رومال پہن لیتا ہے، ورنہ کالی شال اپنے گرد لپیٹ لیتا ہے۔ اچھی آواز کے علاوہ، چاوش کی یادداشت بھی زبردست ہونی چاہیے، زیارت اور دعاؤں کی رسومات کا علم ہونا چاہیے، اور سڑکوں اور مزارات کا بھی علم ہونا چاہیے۔ یاترا کے اختتام پر، وہ دوسروں سے پہلے واپس آکر حاجیوں کی آمد کا اعلان ان کے اہل خانہ کے سامنے کرتا ہے۔ عام طور پر حاجیوں کے اہل خانہ خوش خبری سن کر اسے تحایف دیتے ہیں۔

آج یہ ہنرماضی کی طرح عام نہیں ہے لیکن ایران کے بعض علاقوں میں اب بھی اس کا رواج ہے۔

نام چاوش خوانی
ملک ایران
قسممذهبی

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: