پاکستانی سفیر کی تہران ٹائمز سے خصوصی گفتگو؛
نومنتخب ایرانی صدر کے ساتھ تعاون جاری رہے گا/ پاک ایران گیس پائپ لائن پر تعمیری مذاکرات جاری ہے
پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو نے تہران ٹائمز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے اور ہر فیصلہ اپنے مفاد میں کرے گی۔ ہم ایران کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر ہم تعمیری مذاکرات کر رہے ہیں۔
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تہران میں تعیینات پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو نے تہران ٹائمز کے دفتر کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے تہران ٹائمز کے اعلی اہلکاروں سے ملاقات کی اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور تعاون کے حوالے سے گفتگو کی۔
انٹرویو کے دوران سفیر تھیبو نے ایران اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلقات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے نومنتخب صدر مسعود پیزشکیان کے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑھتا رہے گا۔
انہوں نے ڈاکٹر پزشکیان اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان 5 جولائی کے انتخابات میں ڈاکٹر پزشکیان کی کامیابی کے چند دن بعد ٹیلفونک ہوئی تھی، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات کی گہرائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پاکستانی سفیر کے انٹرویو کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے
تہران ٹائمز: شہید صدر رئیسی کے دور میں آپ سے آخری مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ 5 جولائی کو صدر منتخب ہونے کے بعد پزشکیان نے پاکستانی وزیراعظم سے رابطہ کیا۔ ایران میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے بارے میں آپ کی کیا پیشنگوئی ہے؟
مدثر ٹیپو: ایران کا مستقبل بہت امید افزا ہے۔ چنانچہ آپ جانتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مضبوط اور وسیع کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے دورے کے دوران صدر رئیسی کا بہت گرمجوشی سے استقبال کیا۔ اسلام آباد میں دونوں رہنماؤں نے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ ڈاکٹر پیزشکیان کے صدر بننے کے فوراً بعد ان کے اور وزیر اعظم شریف کے درمیان فون پر بات ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کال ڈاکٹر پیزشکیان اور ایک غیر ملکی رہنما کے درمیان ہونے والی پہلی کال تھی جو ان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں فریقوں کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ دونوں ممالک کی قیادت تجارت کے حجم کو بڑھانے اور عوام سے عوام کے تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سفارتی تعلقات کو مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل میں ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مزید وسعت دی جائے گی۔
تہران ٹائمز: اپریل میں صدر رئیسی کا دورہ پاکستان ان کے آخری غیر ملکی دوروں میں سے ایک تھا جو ان کی المناک شہادت سے تقریباً ایک ماہ قبل ہوا تھا۔ صدر رئیسی اور وزیراعظم شہباز شریف نے دورے کے دوران تعاون کے ایک روڈ میپ پر دستخط کیے۔ ہمیں بتائیں کہ اب تک کون سے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں اور اس روڈ میپ ایران پاکستان تعلقات کے لیے آپ کو کیا ممکنہ فوائد نظر آتے ہیں؟
مدثر ٹیپو: روڈ میپ پر عمل درآمد کے لیے وقت درکار ہے لیکن جو چیز سب سے اہم ہے وہ سیاسی اور اسٹریٹجک عزم ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے خیالات بالکل واضح ہیں اور اسی طرح ایرانی قیادت کے خیالات بھی ہیں۔ ہم نے معیشت، سیکورٹی، تجارت اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں تقریباً 8 معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ اگلے سالوں میں مزید ترقی ہوگی۔ گذشتہ دنوں پاکستان اور ایران کے درمیان 11ویں مشترکہ سرحدی تجارتی کمیٹی کا اجلاس زاہدان شہر میں اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس کے اہم نکات میں سے ایک یہ تھا کہ دونوں حکومتیں سرحد پر سہولیات کو بہتر بنائیں گی تاکہ تجارت میں بہتری آسکے۔ اس طرح کی مشترکہ کمیٹیوں کے علاوہ، دونوں ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور عسکری رہنماؤں کے درمیان متعدد امور پر مشاورت ہو رہی ہے۔
تہران ٹائمز: امریکی مخالفت کے باوجود پاکستان ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے درپیش مشکلات پر قابو پانے اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان کے پاس کون سے ٹھوس اقدامات کررہا ہے؟
مدثر ٹیپو: پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے اور ہر فیصلہ اپنے مفاد میں کرے گی۔ ہم ایران کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر ہم تعمیری مذاکرات کر رہے ہیں۔ ہم خیالات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور مختلف طریقوں کو جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ جلد ہی کوئی نتیجہ نکلے گا۔
تہران ٹائمز: مضبوط سیاسی اور اقتصادی تعلقات کے باوجود ایران اور پاکستان کے درمیان سماجی اور ثقافتی تبادلے محدود ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان زیادہ افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے آپ کونسی حکمت عملی تجویز کرتے ہیں؟
مدثر ٹیپو: یہ بالکل وہی چیز ہے جس کا مجھے بہت خیال ہے۔ میرے خیال میں اس سے بڑی ذمہ داری ہم سرکاری افسران پر عائد ہوتی ہے۔ یقیناً تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بھی اس حوالے سے ذمہ دار ہیں۔
ہمیں اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کہ ہم دونوں ملکوں کے عوام کو کس طرح اکٹھا کر سکتے ہیں خاص طور پر اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہمارے بہت گہرے تاریخی تعلقات ہیں۔ ہم نے کافی بات چیت کی اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی۔
سیاحت کا شعبہ بھی بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ پاکستان اور ایران دونوں بہت خوبصورت ملک ہیں۔ دونوں ممالک تاریخ اور ثقافت سے مالا مال ہیں۔ دونوں حکومتوں کو اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں عوام کو تاریخ کے بارے میں مزید بتانا چاہیے۔
تہران ٹائمز: افغانستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون وہاں کے استحکام میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
مدثر ٹیپو: ایران اور پاکستان دونوں خطے میں استحکام اور افغانستان میں امن اور ترقی کے خواہاں ہیں۔ تہران اور اسلام آباد افغانستان کے حوالے سے تعمیری کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں اور وہاں کے استحکام سے متعلق امور پر مشاورت کرتے ہیں۔
تہران ٹائمز: غزہ میں اسرائیل کی تازہ جارحیت پر پاکستان کا کیا موقف ہے؟ پاکستان نے فلسطینی عوام کی مدد کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟
مدثر ٹیپو: ہم نے غزہ کے لوگوں کو انسانی امداد دی ہے اور ساتھ ہی فلسطینیوں کی حمایت کے لیے تمام بین الاقوامی فورمز پر بھرپور سفارتی اقدامات کیے ہیں۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ بین الاقوامی قانون کا احترام کیا جائے اور اپنے موقف کا اظہار کیا کہ جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ہم اس معاملے پر ایران کے ساتھ بھی متعدد بار بات کر چکے ہیں۔ پاکستان کو غزہ کی صورتحال پر شدید تحفظات ہیں اور وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے اس مسئلے کے حل میں مدد دینے کی کوشش کرے گا۔