نظامی گنجوی
نظامی گنجوی 1141 عیسوی میں گنجا (موجودہ آذربائیجان) میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام جمال الدین ابو محمد الیاس ابن یوسف ابن ذکی تھا ادبی روایات کے مطابق ان کا شمار گزشتہ ہزار سال کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔
باپ کی طرف سے وہ ترک نسل تھے اور ماں کی طرف سے وہ کرد تھے۔ نظامی گنجوی کی شاعری فردوسی یا رومی کی شاعری سے اس لحاظ سے وسیع ہے کہ اس میں انسانی رشتوں کی رومانوی اور بہادری تذکرات کی دونوں جہتوں کو شامل کیا گیا ہے اور انسانی نفسیات کو بے مثال گہرائی اور تفہیم کے ساتھ تلاش اور بیان کیا گیا ہے۔ نظامی کی شاعری میں ایک گہرے روحانی شعور کو بیان کیا گیا ہے لیکن وہ رومی کی طرح اپنے کام کا سارا فوکس وجود کی ماورائی جہت کے اظہار اور بیان پر مرکوز نہیں کرتے ہیں۔ نظامی نہ صرف ایک عظیم تخلیقی فنکار اور شاعر تھے بلکہ ایک عظیم دانشور بھی تھے، اس لیے ان کی شاعرانہ فلسفی کے طور پر درجہ بندی ہے۔ ہمیں نظامی میں ایک مضبوط فکری بیداری، چیزوں پر سوال کرنے اور ان پر تازہ اور اکثر بصیرت انگیز تبصرے کرنے یا اپنے لیے پرانی سچائیوں کو دوبارہ دریافت کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ان کی رومانوی نظمیں انسانیت کے حوالے سے پرجوش جذبات اور فلسفیانہ مشاہدے سے بھرپور ہیں۔نظامی کو ان کے خمسہ یا (پانچ نظموں) اسرار کا خزانہ، خسرو و شیریں، لیلی و مجنون، سات خوبصورتیاں اور اسکندر نامہ کے لیے سب سے زیادہ پہچانا جاتا ہے اسکندر نامہ جو کہ 2 حصوں پر مشتمل ہے ''اقبال نامہ'' اور ''شرف نامہ''۔ پانچوں میں سے ہر ایک واحد میٹر کے ساتھ لکھی گئی، انہوں نے نظامی مکتب ادب کے لیے ایک مضبوط بنیاد کا انتظام کیا جو آج بھی اپنا اثر و رسوخ جاری رکھے ہوئے ہے۔ان کی تصنیف مخزن الاسرار جواہر سے لبریز پتھروں کا ایک قیمتی خزانہ ہے جسے ایک ولی پہچان سکتا ہے۔ یہ طرز زندگی کا چشمہ ہے جو کسی بھی طرح سے سوکھتا نہیں ہے، جو وقت کے ساتھ بھی پرانا نہیں ہوتا ہے، اگر یہ فلسفیوں کے لیے بہت اہم ہے تو صوفیاء کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ جب شاعری اعلیٰ معیار کی اہمیت کے چند پیغامات دیتی ہے اورساتھ میں جب دھن سامعین کے دل کو گرما دیتی ہے اور انہیں مسحور کرتی ہے تو یہ سب کچھ مقصد کی وجہ سے ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا سر چشمہ ہے جو قلب کو منور کر دیتا ہے جو مرد یا عورت کو آخری سچائی کے تخیل اور پرہیزگاری کی طرف لے جاتا ہے۔
جہاں تک خسرو و شیریں کا ذکر کریں تو مکمل اختراعی اور ساختی وضاحت کے ساتھ خسرو شیریں کی نظم نہ صرف نظامی کے لیے بلکہ تمام عالمی ادب کے لیے بے مثال ثابت ہوئی۔ جہاں تک لیلی اور مجنون کی نظم کا تعلق ہے تو نظامی نے یہ نظم شیروان شاہ اخستن کی فرمائش پر لکھی تھی، ابتدا میں انہوں نے سوچا کہ ناہموار پہاڑوں اور جھلستے ریگستانوں کے درمیان بھٹکتے ہوئے ایک عرب لڑکے کی اذیت اور درد کی یہ سادہ سی کہانی شاہی دربار اور اس کے مہذب سامعین کے لیے موزوں موضوع ہے بھی یا نہیں پھر انہوں نے پوری نظم میں بہت سے عربی قصے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اس نظم میں ایک مضبوط ترکی ذائقہ بھی شامل کیا، انہوں نے مجنون کی منقطع کہانیوں کو ترکوں کی ضروریات کے مطابق ڈھالا۔ہفت پیکر شاعری میں شاندار اور خوبصورت تخلیق ہے ایشین اور یورپی ادب کی سب سے اہم شاعرانہ تخلیقات میں سے ایک ہے۔ہفت پیکر کو شاعر کی شاہکار تصنیف کے طور پر پیش کیا گیا ہے، مجموعی طور پر اس میں نظامی کائنات کی ہم آہنگی کو واضح کرتے ہیں۔اسکندر نامہ دو حصوں پر مشتمل ہے، اول شرف نامے کا اختتام سکندر کی لافانی زندگی کے پانی کی ناکام تلاش کے ساتھ ہوتا ہے۔ اقبال نامہ میں افلاطون کی جمہوریہ سیماخذ کردہ اصولوں پر مبنی اسلامی ثالثوں کے ذریعے ایک مثالی نمونے پر مبنی مثالی حکمران کے طور پر سکندر کی ذاتی ترقی کی وضاحت ہے۔
میں نظامی گنجوی کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات میں سے بہت سے سوالات کی نشاندہی کر سکتا ہوں:
زندگی کا کھیل کیا ہے؟
یہ دنیا کیا ہے؟
اچھائی اور برائی کیا ہے؟
کیا محدود کردار کے لیے لامحدود کو حاصل کرنا ممکن ہے؟ اگر نہیں، تو اس مقصد کے حصول کے لیے ہماری کوشش کتنی درست ہے؟نظامی کی یہی فکری تکنیک انہیں اپنے ہم عصر شاعروں سے ممتاز کرتی ہے۔