ایران کے ساتھ کشیدگی میں اسرائیل کی شکست اور اس کے اثرات
صہیونی حکومت کو درپیش صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کو دفاعی اور سیاسی چلینجز کا سامنا ہے۔ حزب اللہ اور حماس کے خلاف پوری طاقت کے استعمال کے باوجود صہیونی حکومت کو شکست ہورہی ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے طوفان الاقصی نے گذشتہ 75 سالوں کے دوران خطے میں صہیونی حکومت کی طاقت کا بھرم توڑ دیا اور اس کے ناپاک وجود کی بنیادیں ہلادیں۔ یہ واقعہ اس وقت وقوع پذیر ہوا جب صہیونی حکومت عرب خطے کی قیادت کے خواب دیکھ رہی تھی۔ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کی طاقت اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوالات ایجاد کیے۔
واشنگٹن اور مغربی ممالک صہیونی حکومت کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ ان ممالک نے فلسطینیوں سے انتقام لینے کے لئے پوری کوشش کی لیکن مقاومتی تنظیموں اور فلسطینی عوام کی مقاومت صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں کو اسٹریٹیجک شکست سے دوچار کیا۔
غزہ کے محاذ پر ناکامی کے بعد صہیونی حکومت نے لبنان کا رخ کیا تاکہ اس محاذ پر کامیابی کے ذریعے اپنی شکست کی تلافی کرسکے۔ صہیونی حکومت نے حزب اللہ پر کاری وار کا فیصلہ کیا اور پیچیدہ کاروائی کے تحت مقاومتی تنظیم کی اعلی قیادت کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کا ایک ہدف لبنانی مقاومتی تنظیم کو غیر مسلح کرنا تھا تاکہ بعد میں آسانی کے ساتھ لبنان کو فتح کرلے۔
حزب اللہ کے خلاف حملوں سے ملنے والی وقتی کامیابی جلد ہی اپنا اثر کھونے لگی کیونکہ تنظیم نے مختصر وقت میں خود سنبھال لیا اور دوبارہ تنظیم اپنے پاوں پر کھڑی ہوگئی۔ حزب اللہ نے جوابی وار میں صہیونی فوج کو شدید نقصان پہنچایا۔ بڑی تعداد میں صہیونی افسران اور اہلکاروں کو ہلاک اور زخمی کردیا اس کے نتیجے میں جنوبی لبنان صہیونی فوج کے لئے ایک دلدل بن گیا۔
26 اکتوبر کو صہیونی حکومت نے اپنی سابقہ دھمکیوں کے برعکس ایران کے خلاف محدود پیمانے پر کاروائی کی۔ ایک مہینے تک تیاریوں کے بعد امریکہ کے ساتھ ہماہنگی کے بعد تل ابیب نے ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ ترک کردیا اور اپنے حملے کا دائرہ بہت مختصر کردیا تاکہ ایران کے جوابی حملے سے بچ جائے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات بھی متاثر ہونے سے بچ جائیں۔
صہیونی حکومت کی امریکہ کے ساتھ ہماہنگی کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں؛
اول: جوابی حملے کے بارے میں ایران کی سنجیدگی کی وجہ سے صہیونی حکومت کے ایٹمی منصوبے یا اقتصادی اور توانائی کی تنصیبات کو ہدف بنائے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ گذشتہ حملے میں ایران نے صہیونی تنصیبات پر کامیاب حملہ کرکے اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔
دوم: اعلی قیادت کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے دوبارہ خود کو سنبھال لیا اور صہیونی حکومت کے زمینی حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جس سے صہیونی فوج کو سنگین نقصان ہوا۔
گذشتہ کچھ عرصے میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے نتن یاہو اور ان کی انتہا پسند کابینہ نے ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کا ارادہ ترک کیا۔ اس کے بجائے اپنی دفاعی طاقت کو حزب اللہ اور حماس کے ساتھ شمالی اور سرحدوں پر جنگ میں استعمال کرنا شروع کیا بنابراین آئندہ چند مہینوں کے دوران صہیونی حکومت اور مقاومتی تنظیموں کے درمیان جنگ میں شدت آسکتی ہے مخصوصا اگر ٹرمپ انتخابات میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے امکانات زیادہ ہیں۔
وعدہ صادق آپریشن اور صہیونی حملوں کو کامیابی کے ساتھ روکنے کے بعد ایران کا کردار مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ نے بھی اپنی طاقت کو دوبارہ بحال کیا ہے۔
امریکہ کی تمام تر حمایت کے باوجود صہیونی حکومت کئی محاذوں پر جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اسی لئے اپنے دشمنوں اور دوستوں کو گمراہ کرنے کے لئے نفسیاتی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ صہیونی حکومت اب بھی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خود کو خطے کی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ سال 7 اکتوبر کے واقعات میں صہیونی حکومت کی زمین بوس ہونے والی خیالی طاقت دوبارہ بحال نہیں ہوسکی ہے۔ لبنان، فلسطین، عراق اور یمن کی مقاومتی تنظیموں کے ساتھ وسیع نبرد کے بعد صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت میں شدید کمی آئی ہے۔ حالیہ جنگ کی مدت بڑھنے کے ساتھ صہیونی حکومت کے زخم مزید گہرے ہوں گے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شکستوں کا سلسلہ برقرار رہے تو صہیونی حکومت کی افسانوی طاقت مزید کم ہوگی اور دوستوں کی نگاہ میں اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔ دوسری جانب دائیں بازو کی جماعتوں اور اپوزیشن کو نتن یاہو کے خلاف مہم چلانے کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔
اگر یہی شکستوں اور بحران کا یہ سلسلہ جاری رہا تو صہیونیوں کی معکوس ہجرت میں مزید تیزی آئے گی۔ لیبرل، دولت مند اور دانشور طبقہ بدامن اور جنگ زدہ اسرائیل میں رہنا نہیں چاہتا ہے۔ ایران اور مقاومتی تنظیموں کے حملوں میں صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت کا پول کھل گیا ہے لہذا صہیونی آبادکار آبائی ممالک واپس جاکر اپنا مستقبل محفوظ بنائیں گے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.