استقامتی محاذ دنیا میں ہر جگہ سامراج کا مقابلہ کر رہا ہے: وینیزوئیلا کے صدر کا انٹرویو
وینیزوئیلا کے صدر نکولس مادورو نے اپنے حالیہ دورۂ تہران میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ انھوں نے اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف اور مدد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اپنی حکومت کی سامراج مخالف پالیسیوں پر زور دیا۔ KHAMENEI.IR نے اسی سلسلے میں وینیزوئیلا کے صدر سے گفتگو کی۔
رہبر انقلاب اسلامی سے آپ کی ملاقات میں انھوں نے کہا کہ ایران اور وینیزوئلا کے بڑے قریبی تعلقات ہیں۔ آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے اس اہم جملے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ایران اور وینیزوئیلا کے درمیان سنہ 2001 سے کمانڈر ہیوگو چاوز کے پہلے دورے سے ہی سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور روحانی لحاظ سے مثالی تعلقات استوار ہوئے۔ یہ دورہ جو میں نے کیا ہے اور جس میں ہم مختلف میدانوں میں تعاون کو آگے بڑھا رہے ہیں، اس میں یہ تعلقات آئیڈیل اور قابل مشاہدہ ہیں اور اس میں ہمیں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے، آیۃ اللہ خامنہ ای صحیح کہہ رہے ہیں کہ ہمارے آپسی تعلقات غیر معمولی اور بے مثال ہیں۔
اس ملاقات میں، ایک اور اہم بات موساد کی طرف سے وینیزوئیلا کے خلاف لگاتار سازش کے سلسلے میں ہوئی۔ آپ ان سازشوں کی کچھ تفصیلات بتا سکتے ہیں؟
جی ہاں! افسوس کہ امپریالزم اور صیہونی ازم نے لاطینی امریکا اور کیریبین سی کے علاقے کے ترقی یافتہ انقلابی عمل خاص طور پر بولیور انقلاب کے خلاف سازشیں کی ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں کیونکہ ہم حقیقی آپشن بن کر سامنے آئے ہیں، حق و انصاف کا آپشن، آزادی کا آپشن، ڈیموکریسی کا آپشن اور لاطینی امریکا اور کیریبین سی کے علاقے کے لیے پوری طرح سے انسانی پروجیکٹس کو عملی جامہ پہنانے کا آپشن۔ ان سب کے علاوہ موساد کی سازشیں اس وجہ سے ہیں کہ فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور ان کی حمایت، ان کے تاریخی حقوق اور فلسطینی استقامت کے سلسلے میں ٹھوس اور عدیم المثال موقف رکھتے ہیں اور آئندہ بھی یہی روش جاری رہے گی۔
پچھلے بیس سال میں ایران اور وینیزوئیلا کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں جنرل سلیمانی اور قدس فورس کا کیا کردار رہا ہے؟
مارچ اور اپریل سنہ 2019 میں جنرل سلیمانی سے میری قریب سے آشنائی ہوئی۔ وہ اس وقت وینیزوئیلا آئے جب بجلی کی تنصیبات پر سائبر حملوں سے ہم پریشان تھے۔ یہ حملے ریاستہائے متحدہ امریکا کے اندر سے کیے جا رہے ہیں۔ مجھے واقعی معلوم نہیں تھا کہ وہ کتنے اعلی انسان تھے لیکن ان سے جو میری باتیں ہوئی وہ بہت دلنشیں تھیں، اس گفتگو میں ہم نے تمام موضوعات کا جائزہ لیا اور انھوں نے فورا ہی ایرانی ماہرین کے ذریعے مدد کرنے کی تجویز دی۔ اس تجویز کے دو یا تین دن بعد ہی بجلی کی تنصیبات کی مرمت کے لیے ماہرین وینیزوئیلا پہنچ گئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا ہے کہ "اگر آج حضرت عیسی مسیح علیہ السلام ہمارے درمیان ہوتے تو ظلم اور عالمی سامراج کے خلاف محاذ سنبھالنے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہ کرتے۔" اس سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ہم راسخ العقیدہ عیسائی ہیں، ہماری سوچ اور دعا، عیسائیت پر مبنی ہے، ہماری کارکردگی بھی عیسائیت کے مطابق ہے۔ حضرت عیسی مسیح سلطنتوں اور رومی سلطنت سے مقابلے کے لیے اس دنیا میں آئے۔ انھوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی اور اپنی زندگی، سلطنت روم کے خلاف جدوجہد میں قربان کر دی۔ اگر ہم عیسائیت کا دعوی کرتے ہیں تو وہ سامراج مخالف، حقیقت طلب اور انصاف پسند ہے۔ مجھے بھی اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر حضرت عیسی مسیح ہمارے درمیان ہوتے تو امپریالزم، عالمی سامراج اور اس کی تمام شکلوں سے مقابلے میں فرنٹ لائن پر ہوتے۔
آپ نے اپنے دور صدارت میں آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای سے کئی بار ملاقات کی ہے۔ کیا ان ملاقاتوں کی کوئی اہم بات بیان کرنا چاہیں گے؟
میں ہمیشہ، آیۃ اللہ خامنہ ای کے حافظے اور یادداشت کی تعریف کرتا ہوں۔ واقعی انھیں آج بھی بہت سی پرانی باتیں یاد ہیں۔ ان سے جو گفتگو ہوئی، اس میں انھوں نے کمانڈر چاوز سے ہونے والی گفتگو کے کچھ جملے دوہرائے، یہ وہ باتیں تھیں جن میں کمانڈر چاوز نے کیوبا اور کمانڈر فیڈل کیسٹرو کے بارے میں اپنی کچھ یادوں کا ذکر کیا تھا۔ جیسے یہ کہ پانچویں درجے کا طوفان سیدھے کیوبا کی طرف بڑھ رہا تھا اور فیڈل اور چاوز کے درمیان کچھ باتیں ہوئی تھیں۔ فیڈل نے چاوز سے کہا تھا: چاوز! اس وقت جو کام تمھیں کرنا چاہیے وہ دعا ہے۔ ہمارے لیے دعا کرو۔ چاوز نے دعا کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ دن گزرگیا اور طوفان نے اپنا راستہ بدلا اور کیوبا کی طرف نہیں آیا۔ چاوز نے فیڈل کو فون کیا اور کہا: معجزہ! فیڈل نے جواب دیا تھا: ہاں! کیونکہ خدا چاوز اور اس کے دوستوں کی مدد کرتا ہے۔ آیۃ اللہ خامنہ ای سے جو میری آخری بات ہوئی اس میں انھوں نے دوستانہ اور محبت آمیز انداز میں کمانڈر چاوز اور کمانڈر فیڈل کیسٹرو کی یاد میں یہ باتیں کہیں۔ واقعی آیۃ اللہ خامنہ ای سے گفتگو روحانیت اور حکمت سے لبریز ہوتی ہے۔ وہ، وینیزوئیلا کے عوام اور ان کے اہداف و مقاصد کو پسند کرتے ہیں اور ہمیشہ ہمیں اچھی اچھی تجاویز دیتے ہیں اور بہترین نصیحتیں کرتے ہیں۔
استقامتی محاذ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے اور آپ اسے کن ممالک پر مشتمل سجمھتے ہیں؟
استقامتی محاذ، پوری دنیا خاص طور پر مغربی ایشیا، ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا اور کیریبین سی کے علاقے میں ہے۔ استقامت اسی طرح ان لوگوں سے متعلق ہے جو نیو لبرلزم، نسل پرستی اور سامراج کی مختلف شکلوں، سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سائبر کے میدان کے سامراج کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ سائبر کے میدان کا سامراج وہ چیز ہے جو اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیل رہی ہے۔
ہم سبھی، جو سامراج سے لڑ رہے ہیں اور اپنے لوگوں اور ان کے ذہنوں سے سامراج کے تسلط کے خاتمے کے لیے جنگ کر رہے ہیں، دنیا میں سامراج کو مسلط کرنے کے مختلف آمرانہ طریقوں کے مقابلے میں استقامی محاذ کا حصہ ہیں۔ اکیسویں صدی، ہماری صدی ہے، لوگوں کے اتحاد کی صدی ہے، عوام کی رہائی کی صدی ہے، انصاف اور حقیقت کی صدی ہے۔ ظالمانہ سلطنتیں، زوال کے مرحلے میں ہیں اور خوشبختی، ترقی و پیشرفت اور عظمت کے لیے عوامی پروجیکٹس اب جا کر شروع ہوئے ہیں۔ یہ صدی، ہماری صدی ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.