شاہ جلال الدین ملکشاہ کے زمانے میں سلجوقی بادشاہ تھا عید نوروز کو سال کا آغاز قر ار دیا اور اس نے رسمی طور پر شمسی سال کو حکومتی سال قرار دیا ان حکومتوں میں سب سے زیادہ صفوی حکومت نے فارسی زبان اور انکے آئین کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اسکے بعد ایرانی مقتدری جیسے سامانی جو ایران کی پرانی ثقافت ، خراسان کی وجہ سے وجود میں آئے تھے انہوں نے بھی بہت سی پرانی سنتوں کو زندہ اور رائج کیا نوروز کو رائج کرنے کی دوسری وجہ آئین کی تدوین اور لوگوں سے خراج لینے کا مسئلہ ہے، خلفاء آئین اور قانون ایرانیوں سے لیتے تھے اصطخری کہتا ہے کہ ایرانی خلافت کے آئین کو وجود میں لانے والے ہیں اور ان حکومتوں کی آئینی اور سیاسی نظام میں تر قی ایرانیوں کی وجہ سے تھی ۔ اور کیونکہ ایرانیوں کے آئین کی اصل کو ساسانیوں سے لیا گیا ہے لہذا مجبور تھے کہ ان تمام کاموں کو انجام دیں جو ان قوانین میں موجود تھے۔ ایران میں سال کا آغاز شمسی سال سے ہوتا تھا اور تمام امور کا آغازاسی دن سے ہوتا اور اسی طرح کھیتی باڑی کا آغاز اسی مہینہ سے ہوتا تھا لہذا حکومتی عہدیدار نوروز کو بہت اہمیت دیتے تھے ابوریحان بیرونی اس سلسلہ میں کہتا ہے کہ: یہی شمسی سال ایران کے تحت رہنے والے اسلامی ممالک میں استعمال ہونے لگا اور فارسی نام اور مہینہ بھی انہی کے حساب سے گنے جانے لگے ۔ نوروز کے زندہ رہنے کی تیسری وجہ کچھ افراد اور گروہ تھے جو مستقیماً اسلامی اور عربی ثقافت سے مقابلہ کرنے کے لئے یہ کام کرتے تھے یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ اسلام سے پہلے رہنے والی ایرانی رسم و رواج کو رائج کرکے لوگوں کو اسلامی ثقافت سے دور کیا جائے اور انکی توجہ اسلام سے پہلے والی رسوم کی طرف مشغول رکھی جائے مقامی حکومت کا وجود جن کو اوپر بیان کیا گیا ہے اور کچھ انقلاب جیسے “باب خردمین” اور “نہضت شعوبیہ ” کا نام ان سلسلوں میں شامل ہے نمونہ کے طور رپر بے دین شہنشاہ رضا شاہ کے ۲۵۰۰ سالہ شہنشاہی جشن کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

مجوسی کون ہیں؟
(إنّ الّذین آمنوا و الّذین هادوا و الصّابئین و النّصارى‏ و الْمجوس و الّذین أشْرکوا إنّ اللّه یفْصل بیْنهمْ یوْم الْقیامة إنّ اللّه على‏ کلّ شیْ‏ءٍ شهیدٌ (الحج/17)
لفط مجوس قرآن میں ایک مرتبہ ذکر ہوا ہے، اور آیت میں مجوس کو ایمان والوں کی صف میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مقابل میں دوسرا گروہ مشرکین کا بیان ہوا ،اس آیت کے مضمون سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجوس اہل کتاب تھے اور اہل دین و آئین الہی تھے جسکی وجہ سے انکو ایمان والوں کی صف میں شمار کیاگیا ہے، اسلامی روایات میں مجوسیوں کو انبیاء کا پیروکار قرار دیا گیا ہے اور بعد میں یہ الہی تعلیمات سے شرک و انحراف کا شکار ہوگئے۔

مکہ کے مشرکین نے پیغمبر اسلام ﷺسے تقاضا کیا کہ ان سے جزیہ لے کر انہیں بت پرستی کی اجازت دے دیں پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: میں اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ نہیں لیتا؟ مشرکین نے جوابی خط لکھا اور کہا : آپ کس طرح یہ کہتے ہیں جبکہ آپ نے منطقہ ھجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان المجوس کان لهم نبى فقتلوه و کتاب احرقوه مجوسیوں کے پاس خدا کا نبی بھیجا گیا انہوں نے نبی کو شہید کردیا اور آسمانی کتاب کو جلادیا،

ایک اور اصبغ ابن نباتہ حضرت علی ؑ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ؑ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: سلونی قبْل أنْ تفْقدونی ، مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کہ میں تم سے رخصت ہوجاوں :
فقام إلیْه الْأشْعث فقال یا أمیر الْمؤْمنین کیْف تؤْخذ الْجزْیة من الْمجوس و لمْ ینْزلْ علیْهمْ کتابٌ و لمْ یبْعثْ إلیْهمْ نبیٌّ فقال بلى یا أشْعث قدْ أنْزل اللّه علیْهمْ کتاباً و بعث إلیْهمْ نبیّا، اشعث ابن قیس کھڑا ہوا اور کہا مجوسیوں سے کس طرح جزیہ وصول کیا جاسکتا ہے جبکہ ان پر نہ ہی نبی آیا اور نہ ہی کوئی کتاب؟ حضرت علی ؑ نے جواب دیا: خدا نے ان پر نبی بھی بھیجا اور کتاب بھی . ،اسی طرح ایک حدیث میں امام سجادؑ: علی ابن الحسین ؑ سے ملتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: عنْ علیّ بْن الْحسیْن ع أنّ رسول اللّه ص قال سنّوا بهمْ سنّة أهْل الْکتاب یعْنی الْمجوس,
پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: ان (مجوسیوں) سے اہل کتاب کے قانون کے مطابق رویہ رکھو ۔
ان روایات سے یہ معلوم ہوتا کہ ایرانی جو مجوسی تھے دراصل دین الہی نبی اور کتاب کا حامل تھے اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ان میں انحرافات پیدا ہوئے اور آتش پرست بن گئے، لہذا انکے عقائد اور رسوم کے مطالعے کے وقت اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے۔
نوروز کی حقیقت کیا ہے؟
نوروز سے متعلق کئی اقوال تاریخ میں ملتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ہم اس تحریر کے اختصار کے خاطر صرف انکے بارے میں اشارے کررہے ہیں:
ایرانی آئین کی کتاب میں یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ اس تہوار کو وہ دن مانتے ہیں جس دن “اھور مزدا” (دنیا کے خدا) کو پیدا کیا اس دن کو اسی وجہ سے مبارک مانتے ہیں ایرانی بادشاہ بھی اس دن کو متبرک سمجھتے ہیں اور اپنی مسند نشینی کا آغاز اسی دن سے کرتے تھے زرتشت کو کتاب اور احادیث کی روشنی میں اہل کتاب میں سے مانا گیا ہے اور بعید نہیں کہ نوروز انکے اصل اعتقادات میں سے ہو یعنی قرآن کی زبان میں ایام اللہ ہو اور زمانے کے بدلنے کے ساتھ تحریفات کردیا گیا ہو جس طرح تاریخ میں ملتا ہے کہ کعبہ توحید پرستوں کی عبادت کا مرکز تھا لیکن دور دراز کے رہنے والوں کی لئے مشقت کا سبب ہونے کی بنا پر لوگ وہاں سے پتھر لے جاتے اور اپنے اپنے علاقوں میں انکی پرستش شروع کردی گئی اور یہیں سے شرک اور بت پرستی کی بنیاد پڑی۔

اس سلسلے میں آیات قرآنی سے استفادہ کیا گیا ہے: ( إنّ ربّکم اللّه الّذی خلق السّماوات و الْأرْض فی‏ ستّة أیّامٍ ثمّ اسْتوى‏ على الْعرْش یغْشی اللّیْل النّهار یطْلبه حثیثاً و الشّمْس و الْقمر و النّجوم مسخّراتٍ بأمْره ألا له الْخلْق و الْأمْر تبارک اللّه ربّ الْعالمین (اعراف/54)

بیشک تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۰۰۰۰۰
اسی طرح سے توریت میں بھی آسمان اور زمین کی خلقت کے سلسلے میں چھ دن کا ذکر ملتا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ نوروز بھی چھ دن پر مشتمل ہوتی ہے، لہذا ممکن ہے کہ اس دین الہی میں آسمان اور زمین کی خلقت کو ایک Event کے طور پر منایا جاتا ہو اور زمانہ گزرنے کے ساتھ اس میں تحریف ہوگئی ہو۔

یاقوت حموی نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں: حمدان بن سحت جرجانی نے کہا کہ ہم عید نوروز میں ذوالریاستین (فضل بن سہل) کی محفل میں تھے کہ عمر بن رستمی (جو عباسی خلیفہ مامون کا کمانڈر تھا) نجومیوں سے عید نوروز کے بارے میں سوال کیا: کہا گیا : پرانے زمانے میں دجلہ کے آس پاس ایک قوم وبا ئی مرض کا شکار ہوگئی گرچہ انہوں نے اس علاقے سے کوچ کرلیا لیکن مرض کی وجہ سے وہ گویا وہ مرگئے ،خداوند عالم نے اول فروردین (شمسی مہینہ) میں بارش نازل کی جس کی وجہ سے انہیں نئی زندگی نصیب ہوئی اسی مناسبت نے مقامی بادشاہ نے اس دن کا نام نوروزرکھ دیا، جب عباسی خلیفہ مامون کو اس بات کی خبر دی گئی تو اس نے کہا یہ مطلب قرآن میں بھی موجود ہے، اور اس آیت کی تلاوت کی: أ لمْ تر إلى الّذین خرجوا منْ دیارهمْ و همْ ألوفٌ حذر الْموْت فقال لهم اللّه موتوا ثمّ أحْیاهمْ إنّ اللّه لذو فضْلٍ على النّاس و لکنّ أکْثر النّاس لا یشْکرون.

بطور اختصار آج کل جس تہوار کو نوروز کے نام سے منایا جاتا ہے گرچہ کہ اس کا آغاز ایرانی قدیم مذہب سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس زمانے میں اسکو بہار کے آغاز میں ملی Event کے طور پر منایا جاتا ہے نہ کسی مذہبی عید کے طور پر البتہ مذہبی قابل ستائش و تحسین امور انجام دئے جاتے ہیں مثلاً مرحومین کی ایصال ثواب کے لیے قبرستان جانا،اماموں، اولیاء کرام اور امامزادگان کی زیارات کے لیے جانا، صلہ رحمی کے کام انجام دینا یعنی رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنا اور بہار کے موسم کی آمد پر خدا کا شکر بجا لانا اور اس سے درست استفادہ کرنا بہار کے موسم کو خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھنا اور قدرت کے خوبصورت مناظر دیکھ کر ترو تازگی کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا اور ایک توانائی حاصل کرنا وغیرہ یہ سارے کام نا صرف خلاف شریعت نہیں ہیں بلکہ قابل تحسین اوردین اسلام کی طرف سے تائید شدہ کام ہیں۔

ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای نے مختلف سالوں میں عید نوروزپر روشنی ڈالی ہے ان بیانات میں سے ایک بیان قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:
عید نوروز ایک مشرقی اور برجستہ و ممتاز اقدار کی حامل عید ہے۔ درحقیقت عید نوروز ایک علامت ہے،تازگی وشادابی اور نشاط وجوانی کی علامت ہے، ا سی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور محبت کی علامت ہے،بھائیوں کا ایک دوسرے کےساتھ ملنا،عزیز واقارب کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت،دوستی کے روابط مظبوط کرنا اوردوستوں اورجاننے والوں کے درمیان مہربانی کے روابط مظبوط بنانا اور کینوں اور دشمنیوں کو(دل سے) مٹانے کی ایک علامت ہے کیونکہ بہار کا موسم تازگی اور شادابی کا مظہر ہے،نشاط کا مظہر ہے اور یہ تمام معنی بہار کے موسم میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ہماری قوموں کے لیے ایک امتیاز ہے کہ انہوں نے نوروز کو اپنے سال کا آغاز قرار دیا، تاریخ کا نقطۂ آغاز قرار دیا ہے، اس لیے کہ (بہار کا موسم) ان تمام برجستہ مطالب کا حامل ہے۔

یہ جشن، ایک قومی جشن ہے ، دینی عیدوں میں سے نہیں ہے، لیکن ہماری شرع مقدس کے اکابرین کی طرف سے بھی نوروزکو تائید حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے پاس ایسی متعدد روایات ہیں کہ جن میں نوروز کی تعظیم و تکریم ہوئی ہے اور نوروز کے دن کو محترم سمجھا گیا ہے۔ یہ چیز اس بات کا سبب بنی ہے کہ نوروز،انسانوں کی پروردگار کے سامنے عبودیت کے اظہار کا وسیلہ بنے اور پروردگار کے سامنے انکساری کا وسیلہ بنے۔ درحقیقت یہ انسان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی یاد سے بھی تازگی اور نشاط بخشے۔