• Jan 4 2024 - 15:41
  • 71
  • مطالعہ کی مدت : 4 minute(s)

مجاھدین و شہدای قدس کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کراچی میں شہداء کانفرنس کا انعقاد

حاج قاسم سلیمانی، ابومہدی المہندس اور دیگر شہدای القدس کی چوتھی برسی کے موقع پر مجلس ذاکرین امامیہ پاکستان کے توسط سے "شہداء و مدافعین القدس کانفرنس" کے عنوان سے المحسن ہال، فیڈرل بی ایریا، کراچی میں ایک یادگار تقریب

حاج قاسم سلیمانی، ابومہدی المہندس اور دیگر شہدای القدس کی چوتھی برسی کے موقع پر مجلس ذاکرین امامیہ پاکستان کے توسط سے "شہداء و مدافعین القدس کانفرنس" کے عنوان سے المحسن ہال، فیڈرل بی ایریا، کراچی میں ایک یادگار تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں القدس کے شھداء و مجاہدین سے عقیدت رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔ کانفرنس میں موجود شیعہ اورسنی دانشوروں سمیت مذہبی وسیاسی قائدین نے شہید حاج قاسم سلیمانی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے قدس کی آزادی کیلئے ان کی راہ پر گامزن رہنے کی تاکید کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی، خانه فرهنگ ایران کراچی کے سربراہ ڈاکٹر سعید طالبی نیا نےعالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے مجاھدین کو خراج عقیدت پیش کیا اور فلسطین و القدس کی آزادی کی خاطر شہید سلیمانی کے اہداف کو جاری رکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو حماس کا دانشمندانہ اور بر وقت اقدام قرار دیا۔  
سندھ بار ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل سرفرازعلی میتلو نے کہا: کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر دنیا میں اسرائیل نام کا کوئی ملک موجود ہے تو مسلمان اسے قبول کیوں نہیں کرتے؟ وہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو بحیثیت ملک تسلیم کیا جانا چاہئے۔ ھم مسلمان کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ رہنے میں ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جو شروع سے اس علاقے میں رہتے تھے وہ اب بھی ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ کیسا انصاف ہے کہ کچھ لوگ باہر سے آکر مسلمانوں کی سرزمین پر زبردستی قبضہ کرکے وہاں ایک ملک بنائیں اور اسے قانونی طور پر تسلیم کرانے کیلئے مسلمانوں پر دباو ڈالیں۔ 
جماعت اسلامی کے بایب امیر ڈاکٹر معراج الہادی نے کہا: غزہ کے درد کو محسوس کرنے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں، بلکہ انسان ہونا ضروری ہے۔ اگر صہیونیت کی جانب سے ظلم و بربریت اپنی انتہا تک پہنچ چکی ہے تو دوسری جانب فلسطینی عوام کا صبر و تحمل و استقامت بھی عروج پر نظر آتا ہے۔ اس لیے یہ مان لینا چاہیے کہ در اصل سس جنگ میں اسرائیل اندر سے شکست کھا چکا ہے۔ حماس کے مجاہدین نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے مقابلے میں عرب ممالک کو صرف چھ دن میں شکست ہوئی تھی اور 1977 کی جنگ میں بھی انہی ممالک نے سترہ دن کے اندر دوبارہ ہتھیار ڈال دیا تها۔ لیکن اس بار بہت قلیل تعداد میں مجاہدین اپنی ایمانی طاقت سے اسرائیل کو ذلت کے ساتھ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والے ہیں۔ 
فلسطین فاونڈیشن کے جنرل سکریٹری صابر ابومریم نے اپنی تقریرمیں کہا: 2005 تک فلسطینیوں نے لاٹھیوں اور پتھروں سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جاری رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ فلسطینی انتفاضہ کی تحریک شروع میں اسی طرح آگے بڑھتی رہی، یہ شھید قاسم سلیمانی تھے جنہوں نے فلسطینی مجاھدین کو پتھر کے دور سے نکالا اور انہیں ڈرون، میزائلوں، راکٹوں اور مشین گنوں جیسے جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس کیا۔ 
جمعیت علمای پاکستان کے ڈپٹی سکریٹری جنرل سید عقیل انجم نے کہا: "غزہ پر پچاسی دنوں سے شدید آگ کی بارش برسائی جارہی ہے، ہزاروں بچے، خواتین اور بے دفاع لوگ مارے جا رہے ہیں۔ مظلوم فلسطینی اب تک راہ خدا میں بائیس ہزار شہید اور پچپن ہزار زخمی دے چکے ہیں۔ لیکن تعجب کہ اس کے باوجود فلسطینی مجاہدین کے صبر و تحمل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سکریٹری جنرل احمد اقبال رضوی نے کہا: 7 اکتوبر 2023 کے بعد دنیا کے سیاسی منظرنامے کا نقشہ مکمل بدل چکا ہے۔ 7 اکتوبر سے پہلے پاکستان، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر رہا تھا۔ عرب ممالک کے صرف اشارے پر وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوچکا تها۔ لیکن الاقصیٰ آپریشن کی وجہ سے ان سب ممالک کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا جو اسرائیل سے روابط بڑھانے کیلئے صف میں کھڑے ہوئے تھے۔ اگر الاقصیٰ آپریشن شروع نہ ہوتا تو اسرائیل کو تمام مسلم ممالک سمیت پوری دنیا تسلیم کر لیتی اور ساتھ ہی پورے فلسطین پر صھیونی حکومت قابض ہوجاتی اور فلسطین نام کا ملک دنیا کے نقشے پر کہیں بھی نظر نہ آتا۔ بس مان لیجئے کہ حماس کے مجاہدین کا الاقصی آپریشن نامناسب نہیں تھا بلکہ یہ ایک قوم کے تشخص کو تباہ ہونے سے روکنے کے لیے ایک بر وقت، بر محل اور مناسب اقدام تھا۔ 
شیعہ علما کونسل کے ڈپٹی جنرل سکریٹری  ناظرعباس تقوی نے کہا: ہم جس زمانے میں اور جس ماحول میں بهی زندگی گزار رہے ہیں اس میں خاص شرایط کے مطابق ہمارے اوپر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس لیے اس دور میں اپنے دینی اور اخلاقی فریضے کو جاننا اور اس پر عمل کرنا ھم سب کیلئے ضروری ہے۔ موجودہ دور میں ہمارا اہم ترین فریضہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور قدس کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔
تقریب سے خطاب کرنے والی شیعہ و سنی اہم شخصیات میں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی، جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما سید عقیل انجم، فلسطین فاؤنڈیشن کے سکریٹری صابر ابومریم کے علاوہ مجلس ذاکرین امامیہ پاکستان کے چیئرمین نثار احمد قلندری بھی شامل تھے۔ نیز کئی مشہور شعراء اور معروف منقبت خوانوں نے بھی شھداء و مجاہدین کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
کراچی پاکستان

کراچی پاکستان

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: