۴ شعبان ولادت با سعادت حضرت عباس علیہ السلام مبارک
حضرت عباسؑ کی عظمت کا ایک بہت بڑا سبب آپ کی امامؑ شناسی, ولایت کی معرفت اور اپنے زمانے کے امامؑ کی اطاعت ہے
۴ شعبان ولادت با سعادت حضرت عباس علیہ السلام
حضرت عباسؑ کی عظمت کا ایک بہت بڑا سبب آپ کی امامؑ شناسی، ولایت کی معرفت اور اپنے زمانے کے امامؑ کی اطاعت ہے، حضرت امام صادقؑ حضرت عباسؑ کے زیارت نامے میں آپ کو خدا، رسول ﷺ و ( اپنے زمانے کے) آئمہ کے مطیع کے عنوان سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
السّلام علیْک ایّها الْعبْد الصّالح الْمطیع لله ولرسوله ولامیرالْمؤْمنین والْحسن والْحسیْن صلّى الله علیْهمْ
سلام ہو آپ پر اے بندہ صالح! اے اللہ، اس کےرسولﷺ، امیر المؤمنینؑ اور حسنؑ اور حسینؑ کے مطیع و فرمانبردار! (کامل الزیارات، ص 786(
قمربنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام چار شعبان المعظم چھبیس ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے- آپ کے معروف القاب قمر بنی ہاشم، علمدار کربلا غازی اور باب الحوائج ہیں۔ ان کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے القاب ہیں جو آپ کی عظیم المرتبت شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں -
حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نے واقعہ عاشورہ میں ایسا بے مثال کارنامہ انجام دیا کہ حق شناسی اور وفاشعاری میں پوری دنیا کے لئےمثال بن گئے ۔ انہوں نے اپنے ایثار و فداکاری اور غیرمعمولی وفا کے ذریعے امام وقت سے اپنے عشق و عقیدت کا اس طرح سے اظہار کیا جس کی مثال قیامت تک نہیں مل سکتی- آپ نے اپنے اس کردار سے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ سخت سے سخت حالات میں بھی امامت وولایت کی پیروی سب سے اولین ترجیح ہے -
حضرت عباس میدان کربلا میں لشکرحسینی کے عظیم علمبردار، شجاعت کے منادی اور سپاہ اخلاص وشہادت کے سردارتھے - حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نے واقعہ عاشورا میں دین اسلام کی حفاظت اور بقا کے لئے جو بے مثال کارنامہ انجام دیا وہ تاریخ کے دامن میں سنہری حروف میں درج ہے- آپ نے واقعہ کربلا سے پہلے بھی اپنے پدربزرگوار حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ مختلف جنگوں میں کفر و نفاق کا مقابلہ کیا اور اسلام کی پاسداری کی-
علمدار با وفا
جناب ابوالفضل العباس علیہ السلام
آپ کی ولادت با سعادت ۴ شعبان المعظم سنہ ۲۶ ہجری کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔
سنہ ۶۱ ہجری میں روز عاشور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہادت پائی۔
آپ کی کل عمر ۳۲ یا ۳۴ برس بتائی جاتی ہے۔
آپکے پدر بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تھے جبکہ والدہ گرامی، جناب فاطمہ علیہا سلام تھیں جو امالبنین کے لقب سے معروف تھیں۔
آپ نے چار معصوم ہستیوں کا زمانہ درک کیا ہے؛ امیرالمومنین، امام حسن، امام حسین اور امام زین العابدین علیہم السلام
آپ کا نام مبارک ’ ’ عباس‘ ‘ خود امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے نام پر رکھا۔
آپ کے القاب میں قمر بنی ہاشم، باب الحوائج، سقا، علمدار کربلا اور عبد صابر زیادہ معروف ہیں۔
امیرالمومنین علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: « انّ ولدی الْعبّاس زقّ الْعلْم زقّاً» میرے فرزند عباس نے اس طریقے سے مجھ سے علم و دانش حاصل کیا جس طرح پرندے کا ایک بچہ اپنی ماں سے دانہ پانی حاصل کرتا ہے۔ (مقرّم، مقتل الحسین، بیروت، دارالکتاب، ص ۱۶۹/ سیمای امام حسین ع، ص ۱۸۲.)
لقب ’ ’ باب الحوائج‘ ‘ آپ کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس وقت ملا جب آپ کریم اہلبیت کے عطا کردہ تحائف، ہدایا اور اشیاء کو مستحق افراد کے درمیان تقسیم فرمایا کرتے تھے۔
آپ کی ذات گرامی کی نمایاں ترین صفت اپنے امام کا مطیع محض ہونا ہے۔ چاہے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلان کی حیات طیبہ کا دور ہو یا اسکے بعد آپ کی شہادت کے موقع پر پیش آنے والے دردناک واقعات ہوں، سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ ہو یا پھر روز عاشور پیش آنے والے واقعات، آپ سراپا اطاعت تھے۔
آپ کی ذات والا صفات امام حسین علیہ السلام کے لئے اسی مقام کی حامل تھی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی ذات کے لئے امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت حامل تھی۔
امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں آپ بڑی قدر و منزلت کے حامل تھے، اس طرح کہ آپ جناب عباس علیہ السلام سے فرمایا کرتے تھے: بنفسی انت؛ یعنی میری جان تم پر قربان۔ اور آپ کی شہادت کے بعد فرمایا کہ ’ ’ ألآن إنکسر ظھری یا أخی‘ ‘ ؛ یعنی اے میرے بھائی اب میری کمر ٹوٹ گئی۔
آپ ایسے امام زادے ہیں جن کے لئے معصومین علیہم السلام کی جانب سے تقریبا ۱۱ زیارتنامے وارد ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف وہ زیارت ہے جو فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی وارد ہوئی ہے۔ ’ ’ السلام یا ایھا العبد الصالح المطیع للہ و لرسولہ‘ ‘
امام جعفر صادق علیہ السلام آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں فرماتے ہیں: کان عمّنا العبّاس بن علیٍّ نافذ البصیرة صلب الإیمان جاهد مع أبی عبداللّه و أبلی بلاءً حسنا و مضی شهیدا؛ ہمارے چچا عباس بن علی اعلیٰ بصیرت اور پختہ ایمان کے حامل تھے، جنہوں نے ابو عبد اللہ (امام حسین) کی رکاب میں جہاد کیا اور امتحان میں سرخرو ہوئے اور پھر شہادت پائی۔ (عمدة الطّالب، ص ۳۵۶
آپ نے سنہ ۶۱ ہجری میں فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ میدان کربلا میں دس محرم کو شہادت پائی۔وقت شہادت آپ کی عمر چونتیس سال بتائی جاتی ہے۔
آپ کے القاب میں سقہ، علمدار، قمر بنی ہاشم اور عبد صالح زیادہ معروف ہیں۔
ابو الفرج اصفہانی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں تحریر کرتے ہیں: عباس بن علی ایک حسین و جمیل صورت کے مالک تھے اور جس وقت آپ گھوڑے پر سوار ہوتے تھے تو آپ کے قدمہائے مبارک زمین پر خط دیا کرتے تھے۔
صاحب منتہی الارب کے مطابق لفظ عباس در حقیقت صیغۂ مبالغہ ہے اور بے مثل و نظیر شجاعت و دلاوری کے باعث فرزند علی (ع) کو عباس کہا جاتا تھا جس کا مطلب ہوتا ہے کچھار میں بیٹھا ہوا شیر۔ (اصفہانی، عماد الدین حسین، مشہور بہ عمادزاده، زندگانی قمر بنی ہاشم، چاپ افست اسلامیہ، محل نشر تہران، سال ۴۱، ص ۵۳.)
واقعہ کربلا سے آشنا ہر شخص حضرت ابوالفضل العباس بن علی علیہما السلام کی ذات والا صفات کی بے نظیر قدر و منزلت، عظمت، شجاعت، جذبۂ اطاعت اور ایثار و فداکاری سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔
فرزند رسول سید الشہدا امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جیسے اصحاب مجھے ملے ایسے نہ میرے نانا رسول خدا کو ملے نہ میرے بابا علی مرتضیٰ کو ملے۔جب شب عاشور حضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ میں تم سب کو اجازت دیتا ہوں کہ تم یہاں سے چلے جاؤ اور میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں، جاؤ اور جا کراپنی جان کی حفاظت کرو۔
آپ کے یہ جملے سن کراصحاب و انصار میں سب سے پہلے جس شخصیت نے اعلان وفاداری کیا وہ حضرت عباس علیہ السلام کی ذات والا صفات تھی۔آپ نے فرمایا: لم نفعل ذلک لنبقی؟ لا أرانا الله ذلک أبداً؛ یعنی ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے کہ اپنی جان کی خاطر آپ کو تنہا چھوڑ دیں، خدا کبھی ایسا دن ہمیں نہ دکھائے۔ اس ایک جملے سے امام کی بنسبت آپ کی معرفت، ایمان، اطاعت اور بصیرت و دور اندیشی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حاملان عصمت آپ کی مدح و ثنا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت عباس بن علی علیہما السلام کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: کان عمّنا العباس بن علی علیہ السّلام نافذ البصیرة صلب الایمان جاہد مع ابی عبد الله و ابلا بلاء حسنا و مضی شهیداً. یعنی ہمارے چچا عباس گہری بصیرت اور ٹھوس ایمان کے مالک تھے، انہوں نے حسین بن علی علیہما السلام کی رکاب میں جہاد کیا، امتحان میں سرخرو رہے اور مقام شہادت پر فائز ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ (امین، سید محسن، اعیان الشیعه، طباعت اول، بیروت، نشر دار التعارف، ۱۴۰۳ ق، ج ۷، ص۴۳۰.)
ایک اور روایت میں سید الساجدین حضرت زین العابدین علیہ السلام اپنے عم بزرگوار کی توصیف کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: رحم الله العباس فلقد آثروا بلی و فدی أخاه بنفسه حتی قطعت یداه فأبدل الله عزوجل بهما جناحین یطیر بهما مع الملائکة فی الجنة کما جعل لجعفر بن أبی طالب علیه السّلام و إنّ للعباس عندالله عزوجل منزلة یغبطه بها جمیع الشهداء یوم القیامة. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، چاپ بیروت، ناشر مؤسسة المعارف، ج ۴۴، ص ۲۹۸.۵] خداوند عالم عباس (ع) پر رحمتیں نازل فرمائے، انہوں نے ایثار و فداکاری کی، سخت امتحان دیا اور خود کو اپنے بھائی (امام) پر فدا کر دیا یہاں تک کہ انکے دونوں بازو قلم کر دئے گئے۔ خداوند عالم نے ان دو بازوؤں اور ہاتھوں کے بدلے انہیں دو پر عطا کئے ہیں جن کے سہارے وہ ملائکہ کے ہمراہ جنت میں پرواز کرتے ہیں اسی طرح جیسے جعفر طیار (جناب عباس کے چچا) کو بھی دو پر عطا کئے گئے۔ شک نہیں کہ عباس علیہ السلام کا خدا کے نزدیک مقام و مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ تمام شہدا تا روز قیامت اس پر رشک کرتے رہیں گے۔