یوم قدس کے موقع پر اسلامک کلچر اینڈ کمیونیکیشن آرگنائزیشن کابیان
ایران کے اسلامک کلچر اینڈ کمیونیکیشن آرگنائزیشن نے قدس کے عالمی دن کے موقع پر ایک بیانیہ جاری کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ « صہیونی دشمن کے خلاف» جامع مزاحمت" کے نام سے ایک تصور کا ظہور دنیا میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔
اسلامک کلچر اینڈ کمیونیکیشن آرگنائزیشن نے ایک بیانیہ جاری کیا، جس میں قدس کی آزادی کو انقلاب اسلامی ایران کا عالمی اہداف قرار دیتے ہوئے دنیا کے مسلمانوں اور آزادی پسندوں، خاص طور پر ایرانی عوام کو بین الاقوامی یوم القدس مارچ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
اس بیان کا متن حسب ذیل ہے:
بسْم اللّه الرّحْمٰن الرّحیم
سبْحان الّذی أسْریٰ بعبْده لیْلًا من الْمسْجد الْحرام إلی الْمسْجد الْأقْصی الّذی بارکْنا حوْله لنریه منْ آیاتنا ۚ إنّه هو السّمیع الْبصیر
بیت المقدس کو غاصبوں کی غلاظت سے آزاد کرانا ایک مقدس مقصد اور ایک مشترکہ طرز فکر ہے جس نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے دنیا بھر میں مظلوم فلسطینی قوم کے لاتعداد حامیوں کو اکٹھا کیا ہے۔ « قدس کی آزادی»
مزاحمت کے پیروکاروں اور دشمن سے ڈیل کرنے والوں کے خلاف ایک مضبوط تحریک ہے۔
قدس کی آزادی نہ صرف ایک بلند نصب العین ہدف ہے بلکہ دنیا میں حریت پسندوں اور انسانی حقوق کے دفاع کاروں کے درمیان گفتگو کا ایک جزو ہے۔ امام خمینی (رہ) نے گہری نظر اور اعلی بصیرت کے ساتھ یوم قدس کو پوری دنیا کے اربوں لوگوں کے لیے ایک متققہ بامقصد ہدف بنایا۔ وہ مقصد جس کا صیہونی حکومت کی غیر انسانی رویہ اور غاصبانہ پالیسی کو مسلسل چیلنج کیا جاتا ہے۔
آج بیت المقدس خطے اور دنیا میں مزاحمتی گفتگو کا مرکز ہے۔ صیہونی ناجائز حکومت اور ان کے مغربی حامیوں اور علاقائی بعض عرب ممالک کے ساتھ فوجی تصادم میں حماس اور اسلامی جہاد سمیت مزاحمتی جہادیوں کی الہی فتح اور کامیابیوں کی وجہ سے آج ہم خطے اور دنیا بھر میں مزاحمتی گفتگو کی حامیوں میں اضافہ اور ان کی تقویت کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ یوم القدس اس مشترکہ نگاہ اور اتحاد پر مبنی ایک مضبوط صف کی عکاسی کرتا ہے۔
آج جیسے ہی ہم رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں داخل ہو رہے ہیں، غزہ اور مغربی کنارے کے باشندوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں، اور جنین کیمپ، شیخ جراح محلے اور یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں مظلوم فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کیا جارہا ہے۔
اس کے برعکس ہم صیہونی دشمن کے خلاف « جامع مزاحمت» نامی ایک تصور کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ ہمہ گیر مزاحمت کئی پہلوؤں اور مثالوں پر محیط ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے اہم مقامات تک مزاحمت کے اثرات سے لے کر مقاومت کے حامی میڈیا کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف ظلم اور بربریت کو بیان کرتے ہوئے، ہم جامع مزاحمت کا ایک تصور دیکھ سکتے ہیں۔
یہ جامع مزاحمت ایک ایسی گفتگو کے تناظر میں ہوتی ہے جو کوئی بھی ڈیل یا سمجھوتے کی تردید کرتی ہے اور صہیونی دشمن پر اعتماد کو ناقابل تلافی زوال اور شکست کا مترادف سمجھتی ہے۔
ایک ایسی گفتگو discourseجو دشمن کے سامنے بے حسی برداشت نہیں کرتی اور فلسطینی عوام کی ان کی اصل اور آبائی سرزمین پر واپسی کے راستے میں موجود تمام پوشیدہ اور ظاہری رکاوتوں کو دور کرنے کے لئے بھرپور جدو جہد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
آج حماس اور حزب اللہ سے لے کر حشب الشعبی اور انصاراللہ سمیت دنیا بھر میں مزاحمت کے لاتعداد حامیوں اور گروہوں تک، سب کی نظریں بیت المقدس اور فلسطینی عوام پر ہیں۔ یوں گذشتہ سالوں میں انقلاب اسلامی کی اس گرانقدر میراث یعنی یوم القدس مارچ نے انسانیت کی پاکیزہ فطرت کو بیدار کیا ہے۔
ایران سمیت پوری اسلامی دنیا اپنے فلسطینی بھائیوں کے حمایت میں مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کے لیے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ میں اپنی فریاد کر بلند کریں گے۔
صیہونی طاقت کے خلاف اس گونج دار فریاد کے اثرات کا نتیجہ یقینا کوئی بھی سمجھوتے کی گفتگو جیسے صدی کی ڈیل یا بعض عرب ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا منصوبہ، سب کا انجام شکست اور فنا سے دچار کردے گا۔
یہ وہی وعدہ الہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حق پرستوں کو دیا ہوا ہے جو دن بہ دن ہم اس بشارت کے قریب تر پہنچ رہے ہیں۔ ان شاء اللہ.
اپنا تبصرہ لکھیں.