• Aug 11 2022 - 09:56
  • 223
  • مطالعہ کی مدت : 5 minute(s)

ہفتہ وار ایران شناسی(Iranology)

اصفہان کا نقش جہان اسکوائر

ہفتہ وار ایران شناسی (Iranology) میں پیش خدمت ہے
« اصفہان نصف جہان»
اصفہان کا نقش جہان اسکوائر
اصفہان کا میدان نقش جہاں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں رجسٹرڈ ہے۔ اس شہر میں ۱۱ ویں سے ۱۹ ویں صدی کے دوران میں تعمیرہونے والے اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونے بھی موجود ہیں۔
اس شہر کی خوبصورتی کے باعث اسے عروج کے زمانے میں « اصفہان نصف جہان» کہا جاتا تھا۔
میدان نقش جہاں اصفہان کے دلکش اور خوبصورت مقامات میں سے ایک ہے جو بہت سے سیاحوں کی توجہ کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔
اس عمارت کے گرد اہم تاریخی عمارات موجود ہیں جن کو صفوی دور میں تعمیر کیا گیا ہے اس کے جنوب میں مسجد شاہ، مغرب میں علی قاپو محل، مشرق میں شیخ لطف اللہ کی مسجد اور اس کی شمالی طرف میں اصفہان کا مرکزی بازار واقع ہیں اسی لیے اس تاریخی مقام کے دورہ کرنے کو کئی دن کی ضرورت ہوتی ہیں۔
اس سکوائرکی (لمبائی ۵۶۰ میٹر اور چوڑائی ۱۶۰ سینٹی میٹر) ہے جو شاہ عباس صفوی کے دور حکومت میں تعمیر کی گئی ہے۔یہ میدان پیرس کے کونکارد اسکوائر سے پرانا اور بیجننگ کے تیانانمن اسکوائر کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا اسکوائر ہے۔
نقش جہاں کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ ۱۵۹۸ میں جب صفوی حکمران شاہ عباس ثانی نے دارالحکومت قذوین سے اصفہان منتقل کیا تو اس نے اسے دنیا کا خوبصورت‌ ترین شہر بنانے کا پروگرام بھی بنا لیا۔اس کے لیے اس نے ایک ماہر تعمیرات شیخ بہاالدین کی خدمات حاصل کیں۔اس نے نقش جہاںکے نام سے ایک شاہکار بنوایا جس نے اصفہان کے حسن کو چار چاند لگادیے۔
نقش جہاں کی مشرقی جانب شیخ لطف اللہ مسجد ہے، مغربی حصے میں علی کاپو محل ہے جہاں شاہ عباس رہائش پذیر ہوتا تھا۔ شمالی کونے میں قیصریا گیٹ ہے جوشاہی بازار میں کھلتا ہے۔جب کبھی یہ صرف میدان تھا اس وقت یہ پولو کھیلنے کے لیے بھی استعمال ہو تا تھااور صفوی حکمران محل کی بالکونی میں کھڑے ہو کر پولو اور گھڑ دوڑ دیکھا کرتے تھے۔
شاہ عباس نے طاقت کے مختلف مراکز کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا، یعنی تاجر، مذہبی لیڈر اور بادشاہت، لہذا شاہی بازار اور جامع مسجد کو شاہی محل سے متصل کردیاگیا۔یاد رہے کہ اس زمانے میں اصفہان دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا اور صفوی سلطنت دنیا کی سپر پاور ز میں سے ایک تھی۔ اسوقت دنیا میں تین سپر پاورز تھیں اور تینوں مسلمانوں کی تھیں۔ سلطنت عثمانیہ جس کا حکمران سلیمان اعظم تھا، صفوی سلطنت کا حکمران عباس اعظم اور مغلیہ سلطنت کا اکبر اعظم ۔
یورپ کے سفیر اور سیاح جب اصفہان آتے تھے تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے تھے اور نقش جہاں تو دیکھنے والے ہر شخص کے دل پر ایک نقش چھوڑ دیتا ہے۔ اس وقت کی عظیم سلطنت روم کے سفیر نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ نقش جہاں کی شان وشوکت روم کے پیازہ نادونااسکوائر سے کہیں زیادہ ہے۔ آجکل یہاں نوروز اور دوسری مذہبی اور سیاسی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں ۔
علی کاپو محل چھ منزلوں پر مشتمل ہے جو ستر سال میں مکمل ہو ا۔ محل کے دربار ہال میں شاہ عباس غیر ملکی سفیروں سے ملا کرتا تھا، محل کی دیواریں اور چھت پینٹنگز سے مزین ہیں اور ستونوں پر شیشے جڑے ہو ئے ہیں اس کی تعمیر کو صدیاں بیت چکی ہیں۔ یہ کئی بار موسمی شدت اور عوامی شورشوں کی نذر ہوا، مگر آخری صفوی حکمران شاہ سلطان حسین نے اس کی مرمت کرائی اوراسے اصلی حالت میں بحال کیا۔
خاجو پل
اصفہان شہر کے بیچوں بیچ بہنے والے دریا زیاندے رود پر بنایا گیا یہ مضبوط اور خوبصورت پل ۱۳۳میٹر لمبا، اور ۱۲میٹر چوڑا ہے ۔ اس میں ۲۳محرابیں بنائی گئی ہیں، یہ پل بھی شاہ عباس دوم نے ۱۶۵۸میں تعمیر کرایا تھا اور اس کے بعد۱۸۷۳ میں اس کی دوبارہ مرمت کرائی گئی۔ایک انگریز مورخ آرتھرپوپ کے مطابق خاجوپل تین چیزوں یعنی افادیت، خوبصورتی اور مضبوطی کے امتزاج کا حسین شاہکار ہے ۔
سی و سہ پل
اصفہان جائے اور سی و سہ پل نہ دیکھے تو یہ زیادتی ہوگی سی و سہ پل کے دونوں اطراف میں سیرگاہ بھی ہے اورسیاح اورمقامی لوگ چہل قدمی کرتے نظر آئیں گے اس پر مستزاد ورزش کے لئے جگہ جگہ مشینیں بھی نصب کی گئی ہیں، رات کا منظر بہت ہی دلفریف ہوتا ہے کیونکہ سی وسہ پل اصفہان کی نائٹ لائف کا مرکز بھی ہے لوگ یہاں شام کو جہاں واک کرنے آتے ہیں وہاں مختلف قسم کی موسیقی کی محلفیں بھی سجائی جاتی ہیں، دریا کے کنارے سبزے پر سیکڑوں لوگ چادریںاور چاندنیاں بچھاکر بیٹھے بہتے ہوئے پانی اورخوبصورت پل کا نظارہ کررہے ہوتے ہیں۔سی و سہ پل تین سو میڑ لمبااور ۱۴فٹ چوڑا ہے اور اس میں ۳۳محرابیں ہیں ۔
فارسی میں سی و سہ کا مطلب ۳۳ ہے چونکہ اس پل میں ۳۳ محرابیں ہیں اسی وجہ سے اس پل کا نام پل سی وسہ سے معروف ہے اس پل کی تعمیربھی شاہ عباس کے دور میں ہوئی ہے ۔
چہل ستون
چہل ستون محل بھی اصفہان میں واقع ہے۔ چہل ستون کا مطلب ہے چالیس ستونوں والا محل جو شاہ عباس دوم نے اسے تعمیر کروایا تھا۔محل کے سامنے ایک طویل تالاب ہے اور چاروں طرف باغات ہیں، محل کی بڑی عمارت لکڑی کے بیس ستونوں پر کھڑی ہے۔ ستونوں کا عکس تالاب میں پڑتا ہے تو وہ چالیس نظر آتے ہیں اس لیے یہ چہل ستون محل کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔
اصفہان چونکہ ایک بہت بڑا تاریخی شہر ہے یہ شہر خوبصورت اسلامی طرز تعمیر کی عمارات، محلات، مساجد اور میناروں کے باعث دنیا بھر میں معروف ہے۔ یہاں ایران کے تمام شہروں سمیت بیرون ممالک سے زیادہ سیاح آتے ہیں اورتاریخی مقامات کے دیدہ زیب اوردلفریب مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اصفہان اپنے خوبصورت قالینوں کے حوالے سے بھیمشہورہے ۔ اصفہان کی صنعتیں قالین، کپڑے کی مصنوعات، لوہا اور ہاتھ سے بنی اشیا تیار کرتی ہیں۔ یہاں کارخانوں کی کل تعداد ۲ ہزار سے زائد ہے ۔
راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: