کنگ آف سپیچ شیخ سعدی شیرازی
شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی بلاشبہ قدیم ایرانی جغرافیائی حدود میں رہنے والے عظیم ایرانی شاعروں میں سے ایک ہیں۔ سات صدیاں گزرنے کے باوجود ان کی تخلیقات کا اثر آج بھی کم نہیں ہوا، اور جب تک فارسی زبان باقی ہے، ان کی تصنیفات زندہ رہیں گی۔ ادبی دانشوروں نے انہیں ’’ماسٹر آف سپیچ‘‘، ’’کنگ آف سپیچ‘‘ اور ’’شیخِ اجل‘‘ جیسے القابات سے نوازا ہے۔

در اقصای عالم بگشتم بسیعالم کے دور افتادہ خطوں کی خاک چھانی ہے میں نے،
به سر بردم ایام با هر کسیاور ہر طبع و خصلت کے لوگوں کے ساتھ مجھے زندگی گزارنے کا موقع ملا۔
تمتع به هر گوشهای یافتمہر گوشۂ عالم سے کچھ نہ کچھ لطف و افادیت حاصل کی،
ز هر خرمنی خوشهای یافتمہر کھلیان سے ایک خوشہ دانائی و حکمت کا چن لیا۔
چو پاکان شیراز خاکی نهادجب سے شیراز کے پاکبازوں نے اس سرزمین پر قدم رکھا،
ندیدم که رحمت بر این خاک بادتب سے میں نے نہیں دیکھا کہ اس خاک پر رحمت کی بارش نہ ہوئی ہو۔
تولای مردان این پاک بوممیں نے اس پاک وطن کے مردانِ حق سے محبت و عقیدت رکھی،
برانگیختم خاطر از شام و روماور اسی باعث شام و روم کی یاد دل سے نکال دی۔
دریغ آمدم زان همه بوستاناس ساری گلزارِ سخن سے خالی ہاتھ جانا مجھے باعثِ افسوس لگا،
تهیدست رفتن سوی دوستانکہ دوستوں کی جانب بے سروسامانی میں روانہ ہونا دل کو گوارا نہ تھا۔
به دل گفتم از مصر قند آورنددل میں خیال آیا کہ جیسے مصر سے قند (مصری) لائی جاتی ہے،
بر دوستان ارمغانی برنداسی طرح دوستوں کے لیے کوئی تحفہ بھیجنا چاہیے۔
مرا گر تهی بود از قند دستاگرچہ میرے دامن میں قند کی شیرینی نہ تھی،
سخنهای شیرینتر از قند هستمگر میرے کلام میں ایسی مٹھاس تھی، جو قند سے کہیں بڑھ کر تھی۔
نه قندی که مردم به صورت خورندنہ وہ مٹھاس جو زبان پر رکھی جائے،
که ارباب معنی به کاغذ برندبلکہ وہ لذّت جو اہلِ دل و دانش، کاغذ پر ثبت کر کے دلوں میں اتارتے ہیں۔
مصلح الدین شیخ سعدی تقریباً 800 برس قبل ایران کے شہر شیراز میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک عظیم معلم سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کی دو کتابیںگلستاناوربوستانبہت مشہور ہیں۔گلستاننثر میں ہے جبکہبوستاننظم میں ہے۔ آپ نے سو برس کی عمر پائی اور شیراز ہی میں انتقال فرمایا۔
سعدی کی تخلیقات کو نظم اور نثر کی دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان کی نثری تخلیقگلستان، ایک ادبی شاہکار ہے جو آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔
گلستان دراصل شیخ سعدی کے کلام اور حکایات کی فارسی کتاب ہے۔ اس شہرۂ آفاق کتاب میں نصیحت آموز اور زندگی سنوارنے والی دلچسپ حکایات شامل ہیں۔گلستانکی نصیحتوں میں شیخ سعدی کا انداز عاجزانہ کے بجائے قدرے جارحانہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ کتاب پاکستان کے اکثر مدارس میں طویل عرصے سے شاملِ نصاب ہے۔گلستانِ سعدینثری ادب میں فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
مولانا الطاف حسین حالیگلستانکے بارے میں لکھتے ہیں:
گلستان کے ابواب کی عمدہ ترتیب، اس کے فقروں کی برجستگی، اس کے الفاظ کی شستگی، اس کے استعارات کی جذالت، اس کے تمثیلات و تشبیہات کی طرفگی، اور پھر باوجود ان تمام باتوں کے عبارت میں نہایت سادگی اور صفائی — اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شیخ نے اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ اس کی تصنیف میں صرف کیا اور اس کی تنقیح و تہذیب میں اپنے فکر اور سلیقے سے بھرپور کام لیا تھا۔سعدی شیرازی کے شاعری میں سرفہرست فارسی شاعری کا وہ غیر متنازعہ شاہکار ہے جسے قدیم زمانے میں عمومی طور پرکلیاتِ سعدیکہا جاتا تھا اور بعد میںبوستانکے نام سے مشہور ہوا۔شیخ سعدی کی مشہور نظمبوستان1257ء میں لکھی گئی، جس میں اخلاقی مسائل کو حکایات کی صورت میں منظوم کیا گیا ہے۔بوستاناورگلستانکو اخلاقی مضامین پر مشتمل منفرد کتابیں تصور کیا جاتا ہے۔ ان کتابوں نے ایرانیوں کے ساتھ ساتھ والٹیئر، گوئٹے جیسے غیر ایرانی اور مغربی مفکروں کو بھی متاثر کیا۔ سعدی کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جو قرآن و حدیث سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اپنی تخلیقات میں ان کا برملا استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے نثر اور نظم دونوں میں قرآنی تعلیمات اور احادیثِ نبوی کو موضوع بنایا۔ وہ ان معانی و مفاہیم پر طویل غور و فکر کے بعد انہیں اپنی فکری ساخت میں ڈھال کر سامعین کے سامنے پیش کرتے تھے۔شیخ سعدی کا انتقال ان کے آبائی شہر شیراز میں ہوا۔ ان کے مقبرے کی موجودہ عمارت نیشنل مونیومنٹس ایسوسی ایشن نے 1331 ہجری میں قدیم و جدید ایرانی فنِ تعمیر کے امتزاج سے تعمیر کی، جو اونچی چھت اور ٹائلوں والی آٹھ پہلو (آکٹاگونل) عمارت ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.