• Mar 17 2025 - 10:28
  • 67
  • مطالعہ کی مدت : 4 minute(s)

پروین اعتصامی پیدائش سے وفات تک

پروین اعتصامی، ایرانی ادب کی ایک عظیم شاعرہ اور مصنفہ تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کے فارسی ادب میں اپنی منفرد اور اہم شناخت قائم کی۔ انہوں نے شاعری، مختصر کہانیاں، ناول اور ڈرامے جیسے مختلف ادبی اسالیب میں اپنے اثرات مرتب کیے۔

رخشندہ اعتصامی، جنہیں دنیا پروین اعتصامی کے نام سے جانتی ہے، ۲۵ اسفند ۱۲۸۵ شمسی کو، جو کہ ۱۷ مارچ ۱۹۰۷ عیسوی کے مطابق ہے، شہر تبریز آنکھیں کھولیں۔
پروین اعتصامی کے والد، یوسف اعتصامی آشتیانی قاجار دور کے ایک ممتاز ادیب اور مترجم تھے، اور ’’مجلہ ادبی بہار‘‘ کی اشاعت کے ذریعے ادبی حلقوں میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کی والدہ، اختر فتوحی، ایک علمی و ادبی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ میرزا عبدالحسین "مُقدّم العِدالہ" کی صاحبزادی تھیں، جو معروف شاعر اور ادیب تھے اور ’’شوری‘‘ کے قلمی نام سے مشہور تھے۔ شوری صاحب قاجار دور کی ایک اہم ادبی شخصیت اور تبریز و آذربائیجان کے عظیم شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔
پروین اعتصامی اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کے چار بھائی تھے۔ ۱۲۹۱ ہجری شمسی میں، وہ اپنے خاندان کے ہمراہ تہران منتقل ہو گئیں اور کم عمری میں ہی ایرانی ثقافت اور ادب سے آشنا ہو گئیں۔ ان کے والد مشروطہ تحریک کے حامیوں میں سے تھے اور وہ معروف استادوں جیسے ڈاکٹر علی اکبر دہخدا اور ملک الشعراء بہار کے ساتھ ملاقاتیں اور گفتگو کرتے تھے۔
پروین اعتصامی نے بچپن ہی میں فارسی اور عربی زبانوں کی تعلیم اپنے خصوصی اساتذہ سے گھر پر حاصل کی۔ تہران کے امریکن اسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے اسی ادارے میں تحقیقی مقالے کا دفاع کیا اور پھر وہاں تدریس کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا۔
۱۹ جولائی ۱۹۳۴ کو پروین اعتصامی اور ان کے والد کے کزن، فضل اللہ ہمایوں فال، شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ نکاح کے چار ماہ بعد دونوں کرمانشاہ منتقل ہو گئے اور وہاں رہنے لگے۔ بدقسمتی سے، ان کی ازدواجی زندگی پروین کے شاعرانہ مزاج اور شوہر کے فوجی رویوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے صرف ڈھائی ماہ سے زیادہ قائم نہ رہ سکی اور بالاخر یہ رشتہ طلاق پر ختم ہو گیا۔
پروین اعتصامی کا انتقال ۱۵ فروردین ۱۳۲۰ ہجری شمسی کو ٹائیفائیڈ کی وجہ سے ہوا۔ یہ سانحہ تہران میں پیش آیا، جہاں ہسپتال میں ناکام علاج کے بعد وہ اپنے گھر واپس آئیں اور ۳۴ سال کی عمر میں عین جوانی میں انتقال کر گئیں۔ پروین اعتصامی کی وفات کو ایران اور دنیا بھر کے ادبی و ثقافتی حلقوں میں ادب کی تاریخ کا سب سے دردناک واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
پروین اعتصامی کو ان کی وفات کے بعد شہر قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے آستانے کے احاطے میں دفن کیا گیا.
پروین اعتصامی ایک عظیم ایرانی شاعرہ اور مصنفہ تھیں جن کی زندگی مشکلات اور رکاوٹوں سے بھری ہوئی تھی، لیکن انہوں نے ان تمام تر چیلنجز کے باوجود اپنی شاعری کے ذریعے دل کو چھو لینے والی اور قیمتی نظمیں تخلیق کیں۔ پروین اعتصامی کا دیوان ایک بیش قیمت اثاثہ ہے جس میں فارسی میں لکھی گئی نظمیں شامل ہیں، جو محبت، جنگ، امید، خواہشات اور دیگر انسانیت سے جڑے مسائل کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں۔ ان کی شاعری کی گہرائی اور سادگی نے انہیں ایرانی ادب میں اعلی مقام عطا کیا ہے.
ان کا یہ نظم بہت ہی مشہور و معروف ہے.
                                          روزی گذشت پادشهی از گذرگهی
                                        فریاد شوق بر سر هر کوی و بام خاست
ایک دن ایک بادشاہ کا ایک راستے سے گزر ہوا۔ ہر گلی اور چھت سے خوشی کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔
                                         پرسید زان میانه یکی کودک یتی              
                                        کاین تابناک چیست که بر تاج پادشاست
اسی دوران ہجوم کے درمیان سے ایک یتیم بچے نے پوچھا ، وہ چمکتی ہوئی چیز کیا ہے جو بادشاہ کے تاج پر رکھی ہوئی ہے؟
                                  آن یک جواب داد چه دانیم ما که چیست
                                       پیداست آنقدر که متاعی گرانبهاست
درمیان میں سے کسی ایک نے جواب دیا کہ یہ کیا چیز ہے، ہمیں کیا معلوم؟ بس اتنا واضح ہے کہ یہ ایک قیمتی اور گرانبہا چیز ضرور ہے.
                                  نزدیک رفت پیرزنی گوژپشت و گفت
                                  این اشک دیدهٔ من و خون دل شماست
ایک بوڑھی عورت جھکی ہوئی کمر کے ساتھ آگے بڑھ کر بولی: یہ میری آنکھوں کے آنسو اور تمہارے جگر  کا خون ہے
                                       ما را به رخت و چوب شبانی فریفته است                  
                                      این گرگ سال‌هاست که با گله آشناست
ہمیں یہ چرواہے کے لباس اور چھڑی سے دھوکہ دے رہا ہے حقیقیت میں یہ بھیڑیا ہے جو سالوں سے اس ریوڑ سے واقف ہے.
                                   آن پارسا که ده خرد و ملک، رهزن است
                                   آن پادشا که مال رعیت خورد گداست
وہ پارسا شخص جو زمین اور گاؤں خریدتا ہے، دراصل چور اور ڈاکو ہے۔ وہ بادشاہ جو رعایہ کا مال کھاتا ہے، دراصل فقیر ہے.
بر قطره سرشک یتیمان نظاره کن
ک                           ج بر قطره سرشک یتیمان نظاره کن
                                    تا بنگری که روشنی گوهر از کجاست
یتیموں کے آنسووں پر نظر ڈالو تاکہ تم سمجھ سکو کہ بادشاہی کے جواہرات کی روشنی اور چمک کہاں سے آتی ہے
                                 پروین به کجروان سخن از راستی چه سود
                                 کو آنچنان کسی که نرنجد ز حرف راست
پروین! جو لوگ کج روی اختیار کر چکے ہیں، ان سے سچ اور حق کی باتیں کرنے کا کیا فائدہ؟ کہاں کوئی ایسا ہے جو سچ اور حق کی باتوں سے ناراض نہ ہو؟

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: