قصر شرین
قصر شریں کہاں ہے؟
قصر شریں صوبہ کرمانشاہ کے تاریخی شہروں میں سے ایک ہے جو ایران کے مغرب میں واقع ہے اوراسے ایران میں تاریخی اہمیت کے حامل شہروں میں شمار کیا جاتا ہے ۔یہ شہر شمال مغرب سے عراق اورمشرق سے مغربی گیلان اورسرپل ذھاب سے ملتا ہے، اس شہر کا مرکز قصر شریں ہے جبکہ دوسرا شہر جو یہاں واقع ہے وہ سومار ہے ۔
اس خطے کے مختلف علاقوں میں موسم مختلف ہے، جنوب میں گرم صحرائی آب و ہوا ہے جبکہ مرکز میں خشک اورنیم معتدل آب ہوا ہے اسی طرح شمال اورمشرق میں سرد نیم خشک آب و ہوا ہے البتہ موسم بہار میں قصر شرین میں موسم انتہائی خوشگوار ہوتا ہے ۔
اگر آپ اس تاریخی شہر کا سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کے قدرتی مناظرسے لطف اندوز ہونے کے لیے موسم بہار کا انتخاب کریں۔اس علاقے میں جنگلات کے تحفظ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سارے جنگلی پودے آپ دیکھ سکیں گے، قصر شریں میں موجود جنگلی درختوں کی بڑی تعداد خشک موسم کا مقابلہ کرنے صلاحت رکھتی ہیں اورسرکاری سطح پر بھی ایسے پودوں کی کاشت کاری کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے جو پانی کی قلت کے ساتھ مقابلہ کرسکتے ہیں ۔جنگلات کی بہتات کے باعث جنگلی حیات کی مختلف قسمیں بھی دیکھ جاسکتی ہیں ۔
قصر شیرین اورسرپل ذہاب کے درمیان ایک ایسا علاقہ موجود ہے جہاں جنگی حیات کا شکار ممنوع ہے اویہ علاقہ ملک کے مغرب میں جنگلی حیات کا واحد مسکن ہے جو نایاب نسل کے جانوروں حاص طورپر آہوکے لئے محفوظ علاقہ تصورکیا جاتا ہے، یہ علاقہ نایاب پربندوں کے لئے بھی محفوظ جگہ ہے ۔
قصر شیریں کے سیاحتی مقامات:
دریائے الوند:
لفظ الوند کے معنی بلندی اور عظمت کے ہیں۔ یہ دریا سراب اسکندر سے نکلتا ہے۔ دریائے الوند قصر شیرین، دلاہو اور سرپل ذہاب شہروں میں بہتا ہے۔
واضح رہے کہ چھوٹی ندیاں جیسے یاران، شاہین قلعہ، دیرہ، آب سراب گرم وغیرہ الگ الگ اس دریا میں بہتی ہیں۔ دریائے الوند ایران اور عراق کی سرحد کو عبور کرتا ہے اور پھر عراق کے شہر خانقین سے دریائے سیروان میں گرتا ہے۔
اس شہر میں اس دریا کے گزرنے سے زراعت مقبول ہو گئی ہے ۔ اس ندی کے باعث زرعی کھیتوں کو سیراب کرنے کے علاوہ شہر میں نخلستان اور باغات وجود میں آتے ہیں۔ یہ باغات فطرت سے محبت کرنے والوں اور ماہی گیری کے شوقین افراد کے لیے بہترین جگہ ہیں۔
نہرشاہگذار:
یہ نہر شاہگدرنہر کے نام سے مشہور ہے۔ اس نہر کی تعمیرساسانی دور میں ہوئی تھی، بعد کے ادوار میں اس نہر کو باغات اور زرعی کھیتوںکی آب پاشی کے لئے استعمال ہوتا رہا اور اب یہ قصر شیرین شہر کے شمال سے دریائے حلوان (الوند) کے پانی کو سید ایاز گاوئں منتقل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
قصر شیریں کی مختصر تاریخ:
قصر شیریں کا تاریخی پس منظر ماد کے دور کا ہے۔ ھخامنشی دور میں، یہ ایک تجارتی راستہ بھی تھا اور اسے ایشیا کے دروازے کے نام سے جانا جاتا تھا۔۔ یہ محل خسرو پرویز کی عیسائی بیوی کے لئے بنایا گیا تھا بتایا جاتا ہے کہ اسی جگہ شرین اورفرہاد کا مشہورافسانہ اوردیگر تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں۔
تاریخ کے مطابق اس دورمیں قصر شرین ایک وسیع باغ تھا جہاں بہت سارزے محلات تعمیر کئے گئے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان محلات کے ارد گرد شہر ابھرے اوررفتہ رفتہ قصر شرین کے نام سے مشہورہوگیا۔ایرا ن عراق جنگ کے دوران سرحد پر واقع ہونے کے باعث عراقی فوجیوں نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا اوراس کے حسن کو خراب کرنے کی کوشش کی، تاریخی اعتبار سے غنی ہونے ا ورمحل وقوع کے باعث اس کی تزئین و آرئش پر دوبارہ توجہ دی گئی اوراب دوبارہ سیاحوں کا مرکز بن گیا ہے ۔
قصر شرین کی تاریخی مقامات:
خسرو بادشاہ کا محل یا مقامی اصطلاح میں حوش کوری:
خسرو بادشاہ کا محل دراصل ساسانی بادشاہ خسرو پرویز نے اپنی بیوی شریں کے لئے بنوایا تھا جو قصر شرین کے باغوں میں واقع ہے، جو اب صرف کھنڈرات ہی رہ گیا ہے۔ ویرانی کے باوجود اس عمارت کے کچھ حصوں میں بچ جانے والے برآمدے اورکچھ دیگر حصے اب بھی نظر آتے ہیں ۔
اس محل کے پہلے بڑے اور چوڑے ہال کو ۳ راہداریوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور اس ہال کے آخر میں ایک مربع کمرہ تھا۔ محل کے دوسرے کمروں کے برعکس بادشاہ کے کمروں کی چھت لکڑی کی تھی اور کالم اینٹوں سے بنے تھے۔ اس حویلی کے چبوترے کے شمالی حصے میں کئی مکانات دیکھے جا سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حویلی میں جنگلی جانور آزادی سے رہتے تھے اور الودندی نہر کا پانی اس حویلی کے باغات کو سیراب کرتاتھا۔ یاقوت حموی نے خسرو کے اس محل کو دنیا کے عجائبات میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اس عمارت کو ایران کے آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔
چھار قاپی آگ کا مندر:
چھارقاپی آگ کا مندر پتھر اورپلاسٹر سے بنا ہوا ہے یہ عمارت ساسانی دورکی ہے اورایران کے آثار قدیمہ کی فہرست میں رجسٹر ڈ ہے، چھار قاپی کامطلب چار دروازے ہیں اوریہ ساسانی دورکے آگ کے مندر وں کا عنوان تھا ۔یہ ان مندروں میں شمار ہوتا ہے جہاں طواف کے لئے گزرگاہیں موجود ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آتشکدہ تباہ ہوگیا ہے لیکن آثار اب بھی موجود اوردیکھے جاسکتے ہیں ۔
قصر شیریں میوزیم آف انتھروپولوجی:
یہ قصر شرین میں واقع واحد عجائب گھر ہے جہاں کرد لباس، خانہ بدوشوں کے آوزار، زرعی آوزارنمائش کے لئے رکھے ہوتے ہیں، ماضی اورکرد ثقافت کے بارے میں جاننے کے لئے اس عجائب گھر کا دورہ کرنا فائدے سے خالی نہیں ہے۔
عباسی کاروانسرا:
پہلے بھی اس طرف اشارہ کیا تھا کہ قصر شیریں ایران اورعراق کی سرحد پر واقع ہے اورتجارتی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل شہرہے اسی کے پیش نظر صفوی دور میں قصر شیرین میں ایک کاروان سرائے کی تعمیر ہوئی۔بعد کے دورمیں اس کاروان سرائے کی مرمت ہوتی رہی تاہم چند سال پہلے آنے والے زلزلے میں کاروان سرائے کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔ لیکن یہ پھر بھی سیاحت کے لیے ایک دلچسپ پرکشش ہو سکتا ہے۔
ثقافت اور آرٹ:
زبان:
قصر شرین کے لوگوں کی زبان « جنوبی کردی» ہے البتہ دیگر کرد بولیاں جیسے سنجافی، جافی، باجلانی و گورانی بھی محدود حد تک بولی اورسمجھی جاتی ہے۔
موسیقی:
کرمانشاہی (کرد) کی اصل موسیقی اس خطے میں بہت مشہور اور مقبول ہے اور اس کا اس شہر کے باسیوں کی روزمرہ کی زندگی کے ساتھ ایک لازم و ملزوم تعلق ہے۔ اس موسیقی کے عام آلات میں بانسری، سرنا، ڈھول، دف اوردیگر شامل ہیں۔موسیقی کے مختلف ساز اورانداز ہیں۔
دستکاری:
سیاحت کے فروغ کے باعث اس شہر میں دستکاری کی سرگرمی پروان چڑھی ہے جو خاندانوں کے لیے مستحکم روزگار فراہم کرتی ہے۔دستکاری سے وابستہ افراد قالین، گلیم، کشیدہ کاری، کڑھائی، چٹائی وغیر ہ بر کشیدہ کاری اورگل کاری کے شعبوں میںمہارت رکھتے ہیں۔
منبت کاری:
یہ فن ایران میں ایک ہزار سال پرانا ہے۔ منبت کاری زیادہ تر لکڑی پر نقش و نگار کی شکل میں کی جاتی ہے، منب کاری غیر یکساں نقش و نگار کی شکل میں مطلوبہ ڈیزائن بنانے کے لیے کی جاتی ہے۔
قصرشیرین کے تحائف:
قصر شرین کے لیموں اورکھجوریں بہت ہی مشہورہیں اور انہیں اس شہر کی مستندیادگار تصورکرتے ہیں، اس شہرمیں قدیم بازاروں اورکاروانسرائے کی موجودگی کے باعث یہاں بیرون ملک سے بھی مختلف اشیاء لائی جاتی ہیں، یہ جگہ نوروز اورویک اینڈ پر یہاں سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.