• Jan 20 2025 - 14:08
  • 119
  • مطالعہ کی مدت : 12 minute(s)

عظیم ایرانی شاعر حکیم ابوالقاسم فردوسی اور ان کا عظیم شاہکار شاہنامہ فردوسی: ایک مختصر تاریخ

حکیم ابوالقاسم فردوسی، جنہیں دنیائے ادب میں "فردوسی" کے نام سے جانا جاتا ہے

عظیم ایرانی شاعر حکیم ابوالقاسم فردوسی اور ان کا عظیم شاہکار شاہنامہ فردوسی: ایک مختصر تاریخ
حکیم ابوالقاسم فردوسی، جنہیں دنیائے ادب میں "فردوسی" کے نام سے جانا جاتا ہے، دسویں صدی عیسوی کے ایک عظیم ایرانی شاعر تھے۔ آپ 940 عیسوی (329 ہجری) میں ایران کے شہر طوس میں پیدا ہوئے اور 1020 عیسوی (410 ہجری) میں وفات پا گئے۔ کچھ روایات کے مطابق آپ کا سالِ وفات 1025 عیسوی (416 ہجری) بتایا جاتا ہے اور آپ کی عمر تقریباً 85 برس تھی۔
فردوسی کا سب سے مشہور اور عظیم کارنامہ "شاہنامہ" ہے، جو فارسی ادب کا ایک بے مثال اور عظیم شاہکار مانا جاتا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے فردوسی نے نہ صرف ایرانی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ کیا، بلکہ فارسی زبان کو بھی نئی زندگی بخشی۔ "شاہنامہ" میں ایرانی تاریخ کے عظیم واقعات، ہیروز اور ان کے کارنامے بیان کیے گئے ہیں، جو نہ صرف ایران کی تاریخ کو زندہ رکھتے ہیں بلکہ یہ اس دور کی اخلاقی، ثقافتی اور تاریخی ورثہ کا اہم حصہ ہیں۔ فردوسی کی شاعری کو اس لحاظ سے بھی بلند مرتبہ حاصل ہے کہ انہوں نے فارسی ادب میں نہ صرف شاعری کی حدود کو وسیع کیا بلکہ اس کو ایک نئے رنگ و روپ میں ڈھال کر اس کی اہمیت میں اضافہ کیا۔
فردوسی کی کنیت ’’ابوالقاسم‘‘ ہے اور اس کے تخلص اور کنیت پر کسی محقق کو اختلاف نہیں۔ تاہم، اس کے اصل نام اور والد کے نام پر مختلف آراء ہیں۔ البنداری نے شاہنامہ کے عربی ترجمے میں اس کا نام ’’حسن بن منصور‘‘ لکھا ہے، جب کہ ’’تاریخ گزیدہ‘‘ میں اسے «حسن بن علی»، «تذکرہ دولت شاہ» اور «آتش کدہ» میں ’’حسن بن اسحاق بن شرف شاہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ پروفیسر براؤن نے بھی ’’حسن بن اسحاق بن شرف شاہ‘‘ کا ذکر کیا ہے۔
نظامی عروسی سمرقندی نے اپنی کتاب ’’چہار مقالہ‘‘ میں فردوسی کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق فردوسی طوس کے علاقے میں طابران کے قریب ایک گاؤں ’’باژ‘‘ کے رہائشی تھے، جہاں ان کے آبا و اجداد کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ تاہم، تیموری شہزادہ بایسنغر مرزا، جس نے ’’شاہنامہ‘‘ کا مقدمہ لکھا، نے فردوسی کے گاؤں کا نام ’’شاداب‘‘ ذکر کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’شاہنامہ‘‘، حکیم ابوالقاسم علی طوسی فردوسی کا ایک عظیم شاہکار ہے جس نے آپ کو دنیائے شاعری میں وہ مقام دلایا جو بہت سے دوسرے شعراء کو حاصل نہ ہو سکا۔ یہ تخلیق فردوسی کو شاعری کے میدان میں ایسی شہرت اور عظمت عطا کرتی ہے جو آج تک برقرار ہے۔
’’شاہنامہ فردوسی‘‘ کو دنیا کی عظیم ترین رزمیہ شاعری میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا فن پارہ ہے جو وقت کے ساتھ بقائے دوام حاصل کر چکا ہے اور آج بھی زندہ ہے۔ فارسی زبان میں تخلیق کردہ دیگر عظیم فن پاروں میں ’’شاہنامہ‘‘ کی حیثیت بے حد منفرد ہے۔ یہ ایک ایسی تصنیف ہے جس پر صدیوں سے تحقیق و تحریر کی جا رہی ہے اور دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔
’’شاہنامہ‘‘ فردوسی کی تخلیق کردہ طویل نظم ہے جس میں تقریباً 50,000 اشعار ہیں۔ اس میں سلطنتِ ایران کی تاریخ کو ایک مافوق الفطرت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس شعری مجموعے میں ایران کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس ادبی شاہکار میں ایرانی داستانیں اور ایران کی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے، جسے شاعرانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’شاہنامہ‘‘ میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ایرانی تہذیب اور ثقافت میں ’’شاہنامہ‘‘ کو اب بھی ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور اسے اہلِ دانش فارسی ادب میں بے مثال ادبی خدمات میں شمار کرتے ہیں۔
ابوالحکیم فردوسی ایک محب وطن شاعر تھے، جنہیں ایران کی سرزمین سے بے پناہ عقیدت اور محبت تھی۔ وہ ایران کے لیے ہر چیز قربان کرنے کے خواہشمند تھے۔ اگرچہ ان کے دور میں موجود دوسرے شعراء بھی ایرانی النسل اور شاعر تھے، لیکن ان کی شاعری دربار محمود تک محدود تھی۔ اس کے برعکس فردوسی کی نظر میں نہ محمود تھا، نہ غزنی، اور نہ ہندوستان، بلکہ اس کے پیش نظر صرف ایران تھا۔
فردوسی نے جو کچھ بھی لکھا، وہ ایران کے عشق میں سرشار ہو کر لکھا۔ اسے اپنے بزرگوں کی سرزمین سے انتہائی محبت تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’شاہنامہ‘‘ میں ایران کی قدیم تاریخ، تہذیب و ثقافت اور خواتین کے مقام و منزلت کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ فارسی ادب کے عظیم شعراء جیسے فردوسی، سعدی، مولوی، حافظ، مولانا روم، جامی اور نظامی نے خواتین اور ان کے مسائل کو اپنی تصانیف میں اہمیت دی ہے۔
«شاہنامہ» میں مختلف مقامات پر خواتین کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے، اور ان کرداروں کے ذریعے فردوسی نے زمانہ قدیم میں ایرانی معاشرے میں خواتین کے مقام، عزت اور کردار کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانوی داستانوں میں صنفِ نسواں کے کردار کی حقیقی عکاسی کرنا ایک ایسا ہنر ہے جو فردوسی کے کلام میں نظر آتا  ہے۔ ایک عورت کا حق آزادی، اس کی اہمیت کا معیار، زینت و آرائش کے وسیلے، گھر داری، روایات سے بغاوت کے نتائج اور دیگر کئی ایسے مضامین ہیں جنہیں فردوسی نے کمال خوبصورتی کے ساتھ ’’شاہنامہ‘‘میں شامل کیا ہے۔ ’’شاہنامہ‘‘ کے متن سے قدیم ایرانی معاشرے میں خواتین کو حاصل مقام، عزت اور شرف کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ایران دنیا کے قدیم ترین تاریخ و تمدن والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ قدیم تمدن کے عوام کے پاس ادب، ثقافت اور تہذیب سے متعلق ایک بے مثال خزانہ موجود تھا، اور کئی اہلِ قلم نے اس خزانے کو شعر و نثر کی شکل میں محفوظ کر کے اپنی آئندہ نسلوں کے لیے چھوڑا۔
فردوسی نے مثنوی کی صورت میں جو عظیم شاہکار ایرانی قوم کے سامنے رکھا، وہ کسی اور شاعر کے بس کا نہیں تھا۔ ’’شاہنامہ‘‘ کے مطالعے سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ہمارے آبا و اجداد کا طرزِ زندگی کیسا تھا، وہ کن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتے تھے اور ان کے حل کے لیے کیا اقدامات کرتے تھے۔
’’شاہنامہ فردوسی‘‘ میں قدیم ایرانی سماج اور تہذیب و ثقافت کی بھرپور تصویر کشی کی گئی ہے، اور اس طرح کا کوئی بھی ادب خواتین کرداروں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ فردوسی نے اپنے اس عظیم شاہکار میں خواتین کے کردار کو مختلف صورتوں میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’شاہنامہ‘‘ میں حکیم ابوالقاسم فردوسی نے عورت کو ایک وفادار، مکمل اور مضبوط مخلوق کے طور پر پیش کیا ہے۔ کئی مقامات پر عورت مرد کی حفاظت کے لیے اپنے تمام وجود کو قربان کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ فردوسی نے خواتین کی دلیری، عفت، پردہ داری، آزادی، چالاکی، وفاداری اور دیگر خوبیاں بیان کی ہیں۔
لفظ ’’حجاب‘‘ کے حوالے سے عام طور پر ذہن اسلامی خواتین کی طرف جاتا ہے، لیکن فردوسی کے کلام میں عورت کا کردار ایک مکمل اور باوقار شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

’’شاہنامہ‘‘میں فردوسی نے عفت اور حجاب کو خواتین کی اصل زینت قرار دیتے ہوئے کہا ہے:
بہِ سہ چیز باشد زنان را بہی
کہ باشند زیبای گاہ مہی
یکی آنک با شرم و با خواست است
کہ جفتش بدو خانہ آراست است
دگر آنک فرخ پسر زاید
او ز شوی خجستہ بیفزاید او
سہ دیگر کہ بالا و رویش
بود بپوشیدگی نیز مویش بود
ترجمہ:تین چیزیں عورت کی منزلت بڑھاتی ہیں اور یہی تینوں چیزیں عورت کی اصل زینت ہیں؛
پہلا یہ کہ وہ شرم و حیاء دار ہو، جس کے باعث گھر میں رونق رہتی ہے۔
دوسرا یہ کہ عورت ماں بن کر اپنے شوہر کی نسل کو آگے بڑھائے۔
تیسرا یہ کہ وہ اوپر سے نیچے تک اس طرح حجاب میں رہے کہ سر کا بال بھی کسی کو نظر نہ آئے اور مکمل طور پر چھپا ہوا ہو۔
’’شاہنامہ‘‘میں خواتین اپنے جسم کو غیر محرم لوگوں کی نظر سے محفوظ اور مخفی رکھتے ہوئے اسے اپنے لیے باعث فخر قرار دیتی ہیں، جیسا کہ افراسیاب کی بیٹی منیژہ فخریہ انداز میں کہتی ہے:
منیژہ منم دخت افراسیاب
برہنہ ندیدہ تنم آفتاب
ترجمہ:میں منیژہ ہوں، افراسیاب کی بیٹی! میرے جسم کو سورج نے بھی برہنہ نہیں دیکھا۔
’’شاہنامہ فردوسی‘‘ میں ۳۰۰ سے زائد خواتین کا ذکر ہے اور مختلف صورتوں میں خواتین کے کرداروں کو بیان کیا گیا ہے، جن میں ایک موقع پر پہلوان رستم کی زبانی ایک عورت کی مذمت بھی کی گئی ہے۔
فردوسی کی زندگی ایرانی تہذیب و ثقافت، زبان و ادب کی تلاش میں گزری، اور پھر اس نے ان تمام عناصر کو نظم کی صورت میں بیان کیا۔ اس دوران اس نے بادشاہوں، امراء اور فنکاروں کے ساتھ ساتھ شاعری کو بھی امر بنا دیا۔ ’’شاہنامہ‘‘ فردوسی کا وہ عظیم ادبی فن پارہ ہے جس کی تالیف میں شاعر کے پینتیس برس صرف ہوئے، اور اسی (۸۰) سال کی عمر میں اس نے ’’شاہنامہ‘‘ کو مکمل کیا۔
فردوسی سے منسوب ایک مشہور شعر ہے، تاہم کئی اہلِ قلم اور محققین کا کہنا ہے کہ یہ شعر فردوسی کے کسی بھی ’’شاہنامہ‘‘ کے نسخے میں درج نہیں۔ البتہ ایک اور کتاب ’’ہجونامہ‘‘ میں یہ شعر موجود ہے، اور مورخین کی رائے ہے کہ ’’ہجونامہ‘‘ کو فردوسی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں موجود اشعار شعری معیار کے مطابق نہیں ہیں اور اس میں ادبی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
فردوسی سے منسوب ایک مشہور شعر ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
میں نے اس تیس سالوں میں بہت مشکلات کا سامنا کیا اور بے شمار تکالیف اٹھائیں، لیکن «شاہنامہ» لکھ کر فارسی تہذیب کو میں نے زندہ و جاوید کردیا ہے۔
بسی رنج بردم دریں سال سی
عجم زندہ کردم بدیں پارسی
فردوسی کے ’’شاہنامہ‘‘لکھنے کے محرکات کے حوالے سے تاریخ دانوں کی رائے ہے کہ ’’ایرانیوں کی وطنیت اور فردوسی کا مذاق سلیم‘‘ اس کا محرک بنا۔ فردوسی کے ’’شاہنامہ‘‘میں موجود اشعار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ طوس میں کھیتی باڑی کا کام کرتا تھا اور اسے ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھیں۔ جوانی اس نے راحت اور آرام میں گزاری۔ وہ طاہران کے فردوس نامی ایک فارم ہاؤس میں رہتا تھا جہاں اس کے دوست آتے جاتے تھے۔ وہاں وہ غزلیں لکھتا اور بہت سکون و اطمینان سے زندگی گزار رہا تھا۔ اسی دوران اس نے ’’شاہنامہ‘‘پر کام کا آغاز کیا۔
’’شاہنامہ‘‘ کے اشعار کے حساب سے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
پہلا حصہ افسانوی ہے اور یہ کیومرث کے دور سے آغاز ہوتا ہے اور فریدون کی آمد تک جاری رہتا ہے۔
اس حصے میں کیومرث، ہوشنگ، تھمورث اور جمشید جیسے بادشاہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ایرانی تہذیب کی ترقی کا آغاز ہوتا ہے۔ فردوسی نے اس حصے میں ان لوگوں اور واقعات کا ذکر کیا ہے جیسے آگ کی دریافت، پتھر کا لوہے سے الگ ہونا، مختلف چیزوں کی تیاری، کپڑے کی بنائی اور زراعت کا آغاز وغیرہ۔ اس زمانے کی بیشتر جنگیں خانہ جنگی کی صورت میں ہوتی ہیں۔
اس دور کے آخر میں ضحاک برائی کی علامت بن جاتا ہے اور حکومت اس کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے، لیکن سرانجام کاویہ آہنگر اور عوام کی حمایت سے فریدون بادشاہ اس کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جس کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔
شاہنامہ کا دوسرا حصہ بہادری اور جنگی داستانوں پر مشتمل ہے۔ اس میں فریدون کی بادشاہی کا آغاز، ایرج، منوچہر، نوذر اور گرشاسب جیسے بادشاہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایران اور توران کے درمیان ہونے والی جنگیں اور اس میں ایران کے بہادر لوگوں کی طرف سے انجام پانے والے کارنامے بھی شامل ہیں۔ زال و رستم، گودرز، بیژن، سہراب اور ان جیسے بہادروں کی داستانیں اس حصے کا حصہ ہیں۔ رستم کی موت کے ساتھ اس دوسرے دور کا بھی خاتمہ ہوتا ہے۔
شاہنامہ کا تیسرا حصہ تاریخی ہے، جس میں بادشاہوں کی زندگی اور موت کے واقعات شامل ہیں۔ اس حصے میں اسفندیار کے بیٹے ’’بہمن‘‘، اردشیر درازدست سے لے کر خسرو پرویز اور ساسانی بادشاہوں تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔ یہ دور بہمن کے دور سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد ہمے، پھر دراب اور دراب کے بیٹے کا ذکر کیا جاتا ہے، جو سلطنت تک پہنچتے ہیں۔ اس دور میں سکندر اعظم نے ایران پر حملہ کیا اور تخت پر بیٹھنے کے لیے دارا کو مار ڈالا۔ سکندر بادشاہ کے دور کو بھی مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے، ساتھ ہی ساسانی حکومت کا بھی ذکر ملتا ہے۔

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: