• Nov 2 2022 - 17:03
  • 227
  • مطالعہ کی مدت : 5 minute(s)

ایران کی قومی رصد گاہ کی ترقی سے عالمی ماہرین فلکیات حیران

ایرانی سائنسدانوں کی بنائی ہوئی دوربین حیرت انگیز ہے

« سائنس» جو دنیا کے سب سے معتبرترین سائنسی رسالوں میں سے ایک ہے، نے « عالمی معیار کی دوربین» کے عنوان سے ایران کی قومی رصد گاہ کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا ہے کہ: اس منصوبے میں ایران کے ماہرین فلکیات کو ان رکاوٹوں کو دور کرنا پڑاجن سے دوسرے ممالک کے سائنسدان اس وقت سامنا کر رہے ہیں۔

فارس نیوز ایجنسی کے سائنس اینڈ پروگریس گروپ نے اپنی رپورٹ میں « سائنس» کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران کے سائنسدانوں کے لیے یہ ایک اہم موڑ پر ہے کہ ماہرین فلکیات نے چند روز قبل تہران میں اعلان کیا کہ ایران کی قومی رصد گاہ (آئی این او) نے عالمی معیار کی ۳.۴ میٹر آپٹیکل دوربین سے پہلی روشنی (نور) ریکارڈ کی ہے۔

ایران کی نیشنل آبزرویٹری کے پروجیکٹ مینیجر، انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل سائنسز (IPM) کے ماہر فلکیات حبیب خسروشاہی کہتے ہیں: ہم طویل عرصے سے اس لمحے کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔

ایران کی نیشنل آبزرویٹری پر تعمیراتی کام کا منصوبہ ۲ دہائی پہلے شروع ہواتھا، جب اس منصوبے پر کام کا آغازکیا تو یہ محض ایک خواب تھا۔

کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر فلکیات اور اس منصوبے کے بین الاقوامی مشاورتی بورڈ کے سربراہ گیری گلیمور کا کہنا تھاکہ''ایران میں اس سے پہلے کسی نے بھی اس پیمانے پر کچھ نہیں کیا تھا، پچھلے سال، منصوبے کے کچھ سابق عملے نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ آیا ڈیزائن میں تبدیلیاں اس کی کارکردگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں؟ ۔

  انجینئر لورینزو زگو، جو ایک مشیر اور مشاورتی بورڈ کے رکن ہیں، کہتے ہیں: یہ شکوک اب دور ہو چکے ہیں۔

آبزرویٹری نے ۲۷ ستمبر کو اسکائی کیلیبریشن کے لیے کام کا آغاز کیا اور اگلی رات اس نے زمین سے ۳۱۹ ملین نوری سال دور واقع کہکشاں کا ایک جوڑا Arp282 کی تصویر کشی کی۔

تصویر کی ریزولیوشن - ۰.۸ آرک سیکنڈز - اور کچھ دن پہلے لی گئی دوسری تصویر، ۰.۶۵ آرک سیکنڈ، وسطی ایران میں ۳.۶۰۰ میٹر گرگیش چوٹی پر واقع آبزرویٹری سائٹ پر ماحولیاتی حالات کی طرف سے مقرر کردہ حد کے قریب ہے۔

ریکارڈ شدہ تصاویر کے بارے میں جیری گلیمور کا کہنا ہے کہ یہ بہت شاندار اور توقع سے کہیں بہتر ہیں۔

شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے فلکی طبیعیات دان رضا منصوری جنہوں نے ۲۰۱۶ تک اس منصوبے کی قیادت کی اور گزشتہ سال ٹیلی سکوپ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، کہتے ہیں: سائنسی کام پر عمل درآمد، جس کی ہمیں امید ہے کہ اگلی موسم گرما میں شروع ہو جائے گا، ڈیزائن اور تعمیر کے معیار کو ظاہر کرے گا۔ دوربین کے انجینئرز کو ابھی مختلف کاموں، جیسے سافٹ ویئر کو مربوط کرنا، فعال آپٹکس کو ٹھیک کرنا اور پہلا سائنسی آلہ اور ایک ہائی ریزولوشن امیجنگ کیمرہ کونصب کرنے کے کام کومکمل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس پروجیکٹ کے بنیادی اہداف میں کہکشاں کی تشکیل کے ارتقا اور ستاروں کا ارتقا اور ایکسپوپلینیٹ ہنٹنگ شامل ہیں۔

ایران کی نیشنل آبزرویٹری اور خطے میں دو دیگر دوربینیں، ترکی میں تکمیل کے قریب ۴ میٹر کی انفراریڈ دوربین اور ہندوستان میں ۳.۶ میٹر کی آپٹیکل ٹیلی سکوپ، عالمی نیٹ ورک میں ایک جغرافیائی خلا کو پر کرتی ہے جو گاما رے جیسے وقتی مظاہر پر نظر رکھنے میں مددگارہیں۔

گلبمور کا کہنا ہے کہ « اس کو ٹریک کرنے کے لیے آپ کو دنیا بھر میں دوربینوں کی ایک زنجیر کی ضرورت ہے۔»

ایک قومی رصد گاہ کی تعمیر کے منصوبے کی تکمیل کیلئے، ایرانی ماہرین فلکیات کو ان رکاوٹوںکا سامنا کرنا پڑا  جن کا سامنا دوسرے ممالک کے چند ہی ماہرین فلکیات اور سائنسدانوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ پابندیاں جو جدید ٹیکنالوجی کی درآمد کو محدود کرتی ہیں، نیز ویزا پابندیاں جو سائنسدانوں کے بیرون ملک سفر کو محدود کرتی ہیں۔

ایرانی انجینئروں کی ٹیم نے دوربین کا شیشہ جرمنی کی ایک کمپنی سے خریدا، پھر انہیں یہ سیکھنا پڑا کہ تقریبا ًہر چیز کو خود کیسے بنانا ہے۔

زاگو کا کہنا ہے کہ « جو چیز مجھے حیران کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی انجینئروں نے مینوفیکچرنگ کے علم کواتنی جلدی کیسے سیکھ لیا» ۔

گلیمور کا کہنا ہے کہ منصوبے کے ہر مرحلے پر، انہوں نے منصوبے کی مشکل مرحلے اورپیچیدگی کو کم کردیا ۔ مثال کے طور پر، یکٹیو کنٹرول سسٹم، سینسرز، ایکچیوٹرزاور سافٹ ویئر جواس منصوبے میں بنیادی آئینہ کی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ پہلی بار بڑی دوربینوں کے لیے تقریبا ایک دہائی قبل بنائے، ایرانی انجینئرز نے ان سب کو ایک ہی ڈیزائن میں شامل کردیا۔

زاگو کا کہنا ہے کہ یہ واقعی حیرت انگیز بات ہے کہ ایک درست ویکیوم چیمبر ہے جسے انجینئرز اور ایک ایرانی کمپنی نے خالی جگہوں کو  ایلومینیم سے ڈھانپنے اور صیقل شدہ شیشے کو دوربین کے آئینے میں تبدیل کرنے کے لیے بنایا ہے۔

گلیمور کا کہنا ہے کہ جب برطانیہ نے ۲۰۰۰ کی دہائی میں فلکیات کے لیے اپنی نظر آنے والی اور انفراریڈ دوربینوں کے لیے ایلومینائزیشن سسٹم بنانے کا فیصلہ کیا تو اس میں کافی وقت لگا۔

خسروشاہی کو آبزرویٹری میں بین الاقوامی ٹیموں کی شرکت کی قوی امید ہے۔ان کا کہنا ہے کہ'' ہماری طرف سے دروازہ کھلا ہے، اگرچہ پابندیاں اور سیاست کچھ ممکنہ تعاون کو روک سکتی ہے۔

خسروشاہی کہتے ہیںکہ ایران میںسنکڑوں سائنس دان اور طلبا ستاروں کا سنجیدگی سے مشاہدہ کرنے کے خواہشمند ہیںاوراس کمیونٹی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

بیسک نالج ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ خاتون مریم ترکی کہتی ہیں: ہم نے مایوسی، اندھیرے اور ایسے الفاظ سے بھی مقابلہ کیا جو ہماری حوصلہ شکنی کر سکتے تھے۔ لیکن آخر کار ہم نے اس شاندارکامیابی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔

 

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: