مجید مشکی، ثقافتی قونصلر اسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان
ایران کا ’’وعدہ صادق‘‘ امت اسلامی کی امنگوں کا ترجمان
بسم الله الرحمن الرحیم
مورخه ۱۳ اپریل ۲۰۲۴، بروز ہفتہ کی آخری ساعتوں میں جب ایک طرف دوستوں کی امید اور توقعات تھیں تو دوسری جانب دشمن اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کے گمان مین تھا، قبلہ اول پر قابض، غاصب اور ظالم نام نہاد حکومت کو سزا دینے کا وعدہ پورا ہوا، تو « آپریشن وعدہ صادق» انجام پایا۔
ایک طرف یہ کارروائی شام کے دارالحکومت دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے پر صیہونی حکومت کے حملے کا جواب ہے، جسے بین الاقوامی طور پر ایک ملک کی سرزمین پر حملہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایران کے متعدد اعلیٰ فوجی مشیروں کی شہادت ہوئی، جبکہ دوسری طرف، دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی توقعات کا جواب ہے، جوغزہ میں اسرائیل کی جانب سے آئے دن خواتین، بچوں، بوڑھوں اور لوگوں کے قتل و غارت کےعینی شاہد ہیں اور اس بربریت کے خلاف عملی اقدام چاہتے تھے۔ اس بربریت سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی قانون کے نقطہ نظر سے، « وعدہ صادق» آپریشن اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۵۱ کے مطابق تھا۔ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتی مقام پر اسرائیلی حکومت کے حملے کی مذمت اور علاقائی اور عالمی سطح پر ایران کے قومی اور بین الاقوامی مفادات کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کی خاموشی اور اسرائیل کے خلاف کسی بھی قانونی اقدام سے گریز کی وجہ سے کیا گیا، اگر ایران کی جانب سےیہ جواب نہ دیا جاتا تو اسرائیل پھر بھی کئی دوسرے مقامات پر اسلامی جمہوریہ ایران کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کی جسارت کرتا۔ اگرچہ یہ آپریشن گزشتہ چند دہائیوں میں اسرائیل کے خلاف سب سے منفرد فوجی آپریشن تھا اور روایتی ہتھیاروں کے استعمال کے نقطہ نظر سے بھی کافی وسیع تھا، مگراس میں شہری اہداف میں سے کسی بھی ہدف کو نشانہ نہیں بنایا گیا اور اسرائیل کے جنگی جنون کے طریقے کے برعکس، اس آپریشن میں اسرائیل کے عام شہریوں پر حملہ بالکل بھی نہیں کیا گیا۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس آپریشن کا بین الاقوامی سطح پر وسیع عکس العمل دیکھنے میں آیا ہے، اس عکس العمل سے بے خبر صیہونی حکومت، اس آپریشن کے تباہ کن اثرات کو پس پشت ڈال کر اپنا تسلط بحال کرنے اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے اس دلیرانہ اقدام نے دنیا کی فضا کو بے حد متاثر کیا ہے اور ہمیں ایک نئے بین الاقوامی نظام کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ ہمیں یاد ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں کسی بھی حکومت کو اسرائیل کے خلاف ایسا اقدام کرنے کی ہمت اور طاقت نہیں تھی۔اس آپریشن کے نتائج سے قطع نظر، ایران کا اسرائیل کے خلاف صرف اس حد تک آپریشن کرنا، اسرائیلی نام نہاد حکومت کی ایک بڑی ناکامی تصور کی جاتی ہے اور اس کے رہنماؤں کے لیے ایک تاریک مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے سیاستدانوں، میڈیا سے وابستہ افراد اور خاص کر اس ملک کی عظیم قوم کے عمدہ عکس العمل پر تہہ دل سے شکر گزار ہیں، جنہوں نے اس آپریشن کی حمایت کی ہے۔