• Jul 9 2025 - 15:54
  • 11
  • مطالعہ کی مدت : 7 minute(s)

ایران کا مشرقی آذربائیجان: جہاں فطرت بولتی ہے، تاریخ سانس لیتی ہے

اگر آپ ایران کی سیاحت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنی فہرست میں مشرقی آذربائیجان صوبے کا نام ضرور شامل کرنا چاہیے کیونکہ مشرقی آذربائیجان کا خاص طور پر گرمیوں میں سفر اور وہاں کے قدرتی و تاریخی مقامات کی سیاحت آپ کے سفر کی رونق کو دوبالا کر دیں گے۔

ایران، جسے تہذیبوں کا گہوارہ اور تمدن کا روشن مینار کہا جاتا ہے، اپنے اندر تاریخ کے انمٹ نقوش، ثقافتی تنوع اور قدرتی مناظر کی ایک دلکش دنیا سموئے ہوئے ہے۔ چار موسموں کی سرزمین ہونے کے ناتے یہاں ہر منظر الگ رنگ، خوشبو اور جذبہ لیے نمودار ہوتا ہے۔ پہاڑوں کی سربلندی، وادیوں کی خامشی، تاریخی عمارات کی عظمت اور جھیلوں کی ٹھنڈک مل کر ایک ایسا طلسم باندھتے ہیں جو ہر سیاح کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے لاکھوں لوگ ایران کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں، تاکہ اس کی گمشدہ تہذیبوں کو چھو سکیں اور قدرتی حسن سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اگر آپ بھی ایران کے اس حسین سفر کے خواہشمند ہیں تو مشرقی آذربائیجان کا نام اپنی فہرست میں ضرور شامل کریں، کیونکہ یہاں کے مقامات نہ صرف آنکھوں کو تسکین دیتے ہیں بلکہ روح کو بھی تازگی بخشتے ہیں۔

یہ بات مسلم ہے کہ تاریخ اور ثقافت کے لحاظ سے ایران کا شمار قدیم ممالک میں ہوتا ہے۔ ایران چار موسموں والا ملک ہے، اس لیے قدرتی مناظر بھی دیدہ زیب اور دلفریب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے لاکھوں سیاح ایران کا رُخ کرتے ہیں اور تاریخی و قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایران کی سیاحت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنی فہرست میں مشرقی آذربائیجان صوبے کا نام ضرور شامل کرنا چاہیے کیونکہ مشرقی آذربائیجان کا خاص طور پر گرمیوں میں سفر اور وہاں کے قدرتی و تاریخی مقامات کی سیاحت آپ کے سفر کی رونق کو دوبالا کر دیں گے۔

۱. تخت سلیمان:

تخت سلیمان، جسے پہلوی تحریروں میں "گنجک شہر" کہا جاتا ہے، ایک سرسبز وادی میں واقع ہے اور اسے تکاب کے مشہور مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض قدیم تحریروں کے مطابق یہ "زردشت" کی جائے پیدائش تھی۔

تخت سلیمان کا قدیم شہر اقوامِ ماد، ہخامنشی، اشکانی، ساسانی اور منگولوں کی رہائش گاہ رہا ہے، اور ان تمام ادوار میں یہ خوشحالی اور طاقت کا مرکز رہا۔ تخت سلیمان تین ہزار سال پرانا ہے، اور اس کی ابدی آگ سات صدیوں تک ساسانی حکمرانی اور زرتشتی مذہب کی عظمت و اقتدار کی علامت سمجھی جاتی تھی۔

درحقیقت یہ علاقہ ساسانی دور میں زرتشتی پادریوں کی مذہبی تعلیم اور تربیت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ اسے پہلے ایران کی قومی یادگاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا، بعد ازاں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی رجسٹر کیا گیا۔

قدیم اور قدرتی عجائبات کے ساتھ ساتھ تخت سلیمان کرۂ ارض کی ان جگہوں میں سے ایک ہے، جہاں زمین کی توانائی کے بہاؤ کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سیاح اس جگہ پر زمین کی توانائی کی سرگرمیوں کے عروج کے دن آتے ہیں اور ایک حیرت انگیز روحانی و نفسیاتی احساس کا تجربہ کرنے کے لیے جھیل کے گرد گھڑی کی سمت چکر لگاتے ہیں۔

۲. تخت سلیمان کہاں ہے؟

تخت سلیمان مغربی آذربائیجان صوبے کے جنوب مشرق میں تکاب شہر سے ۴۵ کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ تہران سے تخت سلیمان جانے کے لیے قزوین، پھر زنجان، بیجار، تکاب اور پھر تخت سلیمان کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ راستے میں تہران، اسلام شہر، ساوہ، کبودرآہنگ، بیجار اور تکاب آتے ہیں۔

۳. تخت سلیمان کی مختصر تاریخ:

تخت سلیمان سے حاصل ہونے والی باقیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ پر تین ہزار سال پہلے انسان آباد تھے۔ یہاں پتھر کے دور، لوہے کے دور، ہخامنشی اور اشکانی دور کے لوگوں کے آثار بھی ملے ہیں۔ جھیل کے شمال مغرب میں ایک رہائشی گاؤں کے آثار موجود ہیں، جو تحقیق کے مطابق ہخامنشی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ تخت سلیمان اور آتشکدہ کی تعمیر کا حکم ساسانی بادشاہ بہرام گور نے دیا تھا، اگرچہ اس کی تزئین، آرائش اور توسیع میں دوسرے ساسانی بادشاہوں کا بھی کردار رہا۔ اس جگہ کو ۶۲۴ عیسوی میں رومن امپائر نے تباہ کر دیا تھا جسے بعد میں بحال کیا گیا۔

۴. ایل گلی پارک تبریز:

تبریز شہر ایران کے اہم سیاحتی مراکز میں سے ایک ہے، جہاں ہر سال ایران اور دنیا بھر سے سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔ ایل گلی تبریز میں سیاحوں کے لیے ایک اہم اور پرکشش مقام ہے۔

مشرقی آذربائیجان صوبے اور تبریز شہر میں واقع ایل گلی پارک اپنے کئی پرکشش پہلوؤں کی بنا پر ملک کے اہم سیاحتی مقامات میں شامل ہے۔ ایل گلی کو "شاہ گلی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس پارک میں ایک مربع شکل کی مصنوعی جھیل ہے، جس کے چاروں طرف چہل قدمی کے لیے ٹریک بنے ہوئے ہیں۔

جھیل کے بیچ میں آذربائجان کے روایتی طرزِ تعمیر کی ایک عمارت ہے۔ جھیل کے جنوب میں درختوں سے ڈھکی ایک پہاڑی واقع ہے جس کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ چوٹی پر ایک عمارت اور جدید طرز کا ہوٹل بھی ہے۔

۵. ایل گلی کی تاریخ:

ایل گلی کمپلیکس کے پہلے بانی کے بارے میں کوئی یقینی معلومات نہیں، تاہم یہ مشہور ہے کہ عباس مرزا کے بیٹے اور محمد شاہ کے بھائی قہرمان مرزا نے تالاب کو بحال کیا اور اس کے درمیان ایک دو منزلہ حویلی تعمیر کروائی۔ محمد خان اعتمادالسلطانیہ نے اس بارے میں لکھا ہے: "ایک بڑی جھیل مرحوم شہزادہ قہرمان مرزا نے تبریز شہر کے مشرق میں بنوائی تھی۔"

۶. مشروطہ ہاؤس (میوزیم)، تبریز:

تبریز کی تاریخ اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے۔ قاجار دور میں یہ ایران کا اہم اور ترقی پسند شہر تھا۔ عصرِ حاضر میں بھی یہ ملک کے اہم اقتصادی و صنعتی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں تبریز بہت سی سماجی، ثقافتی اور صنعتی تحریکات کا مرکز رہا ہے۔

تبریز میں واقع مشروطہ ہاؤس مشروطہ انقلاب کی علامت ہے۔ اس تاریخی عمارت میں انقلابِ مشروطہ کی اہم شخصیات جیسے ستار خان اور باقر خان جمع ہوا کرتے تھے۔ اس مکان کو ۱۳۷۵ ہجری شمسی میں میوزیم میں تبدیل کر کے "مشروطہ میوزیم" کا نام دیا گیا۔

۷.بازارِ تبریز:

تبریز کا بازار دنیا کا سب سے بڑا مسقف (چھت والا) بازار ہے، اور ایران کے جدید و تاریخی بازاروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

اس بازار کی اینٹوں سے بنی محرابیں، بلند گنبد، اسکول، مساجد اور حجرے اسلامی طرزِ تعمیر اور تجارتی فضا کی عکاسی کرتے ہیں۔ بازار میں پانچ ہزار سے زائد دکانیں، امیر بازار، صفی بازار، حاجی مرزا علی نقی بازار، مساجد اور کاروان سرائیں واقع ہیں۔

ابن بطوطہ، مارکو پولو، یاقوت حموی اور دیگر سیاحوں نے تبریز کے بازار کا ذکر کیا ہے۔ تبریز چونکہ شاہراہِ ریشم پر واقع تھا، اس لیے مختلف ممالک کے قافلے یہاں سے گزرتے تھے، اور تبریز دنیا کے اہم تجارتی مراکز میں شمار ہوتا تھا۔

۸. الاداغ لار کے رنگین پہاڑ:

تبریز، مشرقی آذربائیجان کا مرکزی شہر، ٹھنڈی آب و ہوا، پہاڑوں، غیر فعال آتش فشاں اور برفانی جھیلوں کی سرزمین ہے۔

زنجان سے گزرنے کے بعد رنگ برنگے پہاڑی سلسلے دکھائی دیتے ہیں، جنہیں الاداغ لار یا "رنگین پہاڑ" کہا جاتا ہے۔ یہ مشرقی آذربائیجان کے حسین مناظر میں سے ایک ہیں۔

۹. مقبرہ‌الشعراء:

مقبرہ‌الشعراء تبریز کے پرکشش اور قابلِ دید مقامات میں سے ایک ہے۔ تبریز آنے والا ہر سیاح یہاں کی زیارت ضرور کرتا ہے۔ یہ مقام خرساب قبرستان میں مدفون شاعروں اور ادیبوں کی یادگار ہے۔ اسدی طوسی، خاقانی شروانی اور استاد شہریار جیسے عظیم شعراء یہاں آسودۂ خاک ہیں۔

۱۰. مقبرہ‌الشعراء کی تاریخ:

سرخاب، تبریز کا تاریخی محلہ، بزرگوں اور علما کی رہائش گاہ رہا ہے۔ یہاں ربع رشیدی، مقبرہ‌ حیدر، عون بن علی، سید حمزہ، صاحب الامر، سید ابراہیم، صفوہ‌الصفا اور مقبرہ‌الشعراء جیسے تاریخی مقامات واقع ہیں۔ مقبرہ‌الشعراء ماضی میں "حظیرۂ الشعراء" یا "سرخاب قبرستان" کے نام سے جانا جاتا تھا۔

۱۱. کلیسای چوپان (چرواہے کا چرچ):

چرواہے کا چرچ، جلفا شہر سے پانچ کلومیٹر مغرب میں دریائے ارس کے کنارے واقع ہے۔ یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور مقامی لوگ اسے "ناخیرچی" کہتے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق یہ ۱۶ویں صدی کا چرچ ہے، جو آرمینی چرواہوں کے لیے عبادت گاہ تھا، اور ۱۸۳۶ء میں دوبارہ تعمیر ہوا۔ چرچ کی عمارت پر ایک گنبد اور چار روشندان ہیں۔ چرچ کے صحن میں پتھر کی صلیبیں تھیں جنہیں تبریز منتقل کر دیا گیا۔ یہ چرچ ۲۰۰۸ء میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں اور ایران کی آثارِ قدیمہ کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

راولپندی پاکستان

راولپندی پاکستان

تصاویر

اپنا تبصرہ لکھیں.

فونٹ سائز کی تبدیلی:

:

:

: