ایران شناسی (IRANOLOGY) ۔۔
کرمانشاہ شہر کے شمال میں ایک شاندار تاریخی مقام ہے جومختلف تاریخی اداوراورلوگوں سے وابستہ واقعات اور رسوم و رواج کی یاد دلاتا ہے۔طاق بستان تیسری صدی عیسوی کے ساسانی دور سے بچ جانے والے قیمتی آثار میں سے ایک ہے، جسے اس سرزمین کے فنکاروں نے ایک خوبصورت جھیل کے کنارے پر بنایا تھا۔
طاق بوستان ایران اور دنیا کی سب سے منفرد تاریخی یادگاروں اور کرمانشاہ کے پرکشش مقامات میں سے ایک ہے، جسے قدیم ایرانیوں کی شان و شوکت کے شاندار یادگاراور دنیا کا پہلا پتھریلا اینیمیشن کہا جاتا ہے۔
ساسانی دور کے پتھروں پر نوشتہ جات کا ایک قیمتی ذخیرہ، جس میں کئی تاریخی مناظر جیسے خسرو پرویز کی تاجپوشی، اردشیر دوم کی تاجپوشی، شاہ پور دوئم اور سوئم کی تاجپوشی، نیز متعدد پتھروں پر پہلوی رسم الخط میں کی تحریریں موجود ہیں۔
تاریخی کتب اور مختلف متون میں ان یادگاروں کا ذکرشبدیز، قصر شیریں، طاق وسطام، طاق بی ستون، تخت بستان اوطاق بھستون ناموں سے ملتا ہے۔
تاہم کرمانشاہ کے لوگوں اور کرد لوگوں کی طرف سے یہ علاقہ « طاق وسان» کے نام سے مشہور ہو گیا ہے۔
طاق وسان نام رکھنے کی وجو وسان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے محراب کے ساتھ والا پتھر، یعنی پتھر سے شراشیدہ محراب۔
یہ پتھر کی محرابیں زمین سے ۳۲ میٹر کی بلندی پر کھودی گئی ہیں اور چھوٹے اور بڑے دو حصوں میں دیکھی جا سکتی ہیں، ان محرابوں کے اصل راز کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا ہے، بعض ایران شناسی اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ طاق بستان اصل میں ساسانی دور میں ایک مقدس مقام تھا اور محراب کے ساتھ پانی کے چشمے کی موجودگی کی وجہ سے اس مقدس مقام کو آناہیتابھی کہلاتا ہے۔
یہاں ایک صاف و شفاف چشمہ موجود ہے جس کے پانی میں کشتی رانی کی گنجائس بھی موجود ہے جس کی وجہ سے یہاں سیاحوں کی بڑی تعداد بھی آتی ہے جولوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔
بعض دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ ساسانی خاندان کے بادشاہ خسرو پرویز نے پہاڑوں کے درمیان اپنے لیے پتھر کا محل تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن یہ محل نامکمل ہی رہ گیا۔
اس محراب کی تعمیر کے وقت کے بارے میں محققین کے درمیان تین آرا ہیں۔ پہلا نظریہ اردمن (Erdmann) نے پیش کیا تھا۔ان کے مطابق یہ پیروز اول (۴۴۸/۴۵۹ئ) میں بنایا گیا تھا۔
دوسرا نقطہ نظر ہرزفیلڈ (Herzfeld) نے پیش کیا ہے۔اس کے مطابق یہ خسرو دوم (۶۲۸-۵۹۰ عیسوی) میں بنایا گیا تھا۔
تیسرا نقطہ نظر وون گال (Von. gall) نے پیش کیا تھا۔ان کا خیال ہے کہ یہ ایوان پیروز اول کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن ایوان کی اطراف کی دیواروں پر شاہی شکار کے مناظر خسرو دوم کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج، ایرانی علوم کے حلقوں میں، دوسرے نقطہ نظر، یعنی ہرٹزفیلڈ کے نقطہ نظر کے حامیوں کی اکثریت موجود ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا نام طاق بستان کیوں رکھا گیا اس کا جوسیدھا جواب ہے وہ یہ ہے کہ طاق بوستان کو کرمانشاہی (کرد) زبان میں تاق و ہ سان کہتے ہیں۔ « تاق» کا مطلب محراب ہے، « وہ» کا مطلب ہے « سان» جس کا مطلب پتھر ہے، اور اس طرح « تاق وہ سان» کا مطلب پتھر کی محراب ہے۔
اس علاقے کے قدیم فارسی نام باغستان اور باغستان کا مطلب دیوتائوں کی جگہ ہے اور یونانی تحریروں میں باغستان (Uros) ہے۔
ساسانی بادشاہوں نے سب سے پہلے اپنے مجسموں کو تراشنے کے لیے تخت جمشید کے آس پاس کے علاقوں کا انتخاب کیا، لیکن اردشیر دوم اور اس کے بعد کے بادشاہوں نے طاق بستان کا انتخاب کیا، جو شاہراہ ریشم کے بیچ میںواقع ہونے کے ساتھ سرسبزوشاداب اور چشموں سے بھرا تھا۔
جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا کہ طاق بستان میں دو بڑی اور چھوٹی محرابیں ہیں۔، آپ شاہ پور سوئم اور شاہ پور دوئم کی پتھر پر نقش و نگار پورے چہرے اور آدھے چہرے کو مکمل دیکھ سکتے ہیں، دونوں نے اپنے دائیں ہاتھ کو تلوار پر رکھا ہوا نظر آتا ہے۔جبکہ شاہ پور دوم نے تاج اور بالیاں اور کانوں اور گلے میں ہار پہنا ہوا ہے۔
چھوٹے محراب والے برآمدے کے دائیں جانب اردشیر دوم (نویں سامانی بادشاہ) کی تاجپوشی کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر میں ہم اردشیر کی ایک دوسرے سے ملی بھنویں، لمبی داڑھی اور گھنگریالے بال، زانو تک پھیلے لباس اورچین دار پتلون، جب کہ اس کا دایاں ہاتھ تلوار کی چوٹی پرہے اسی طرح گردن میں موتیوں کا ہار اورسرپر تاج وغیر ہ کا مشاہد ہ کرسکتے ہیں۔
بڑی محراب میںآپ ان قیمتی یادگاروں کا ایک مجموعہ دیکھ سکتے ہیں جو ایران کی تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ دونوں طرف چوکور دیواریں ہیں جن پر ساسانی دور کے آثار واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایک اورتصویر میں جو پہلی تصویر کے نیچے رکھی گئی ہے، آپ تین چہروں والے گھوڑ سوار کو گھوڑے پر بیٹھے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جس کے ہاتھ میں نیزہ ہے، مورخین کے مطابق یہ گھڑ سوار خسرو پرویز ہے، جو شبدز نامی اپنے گھوڑے پر بیٹھا ہے۔ واضح رہے کہ اس بڑی محراب کی اطراف کی دیواروں پر آپ ہرن کے شکار اوردیگر جانوروں کے شکار کی مشہور تصاویر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تصویریں اتنی خوبصورت اور تفصیلات کے ساتھ ہیں کہ لگتا ہے ان تصویروں کو مجسمہ بنانے کے بجائے پینٹ کیا گیا ہے۔
تکبوستان کے علاقے کا سفر کرکے، آپ کو نہ صرف ساسانی دور کے رہ جانے والے عجائبات اور کاموں سے آگاہی حاصل ہوگی، بلکہ آپ کرمانشاہ کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک کو دیکھ کر اپنے سفر کی خوشی کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔ اس علاقے میں ہزاروں سال پرانے پانی کے چشمے ہیں جو ساسانی دور سے زرعی اور پینے کے کھیتوں کے لیے پانی کا ذریعہ رہے ہیں۔
طاق بسان کے علاقے کے سفر کے دوران آپ کو نہ صرف ساسانی دور کے عجائبات اور آثار سے آگاہی حاصل ہوگی، بلکہ آپ کرمانشاہ کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک کو دیکھ کر اپنے سفر کی خوشی کو دوبالا کرنے کا بھی موقع میسر آئے گا۔ اس علاقے میں ہزاروں سال پرانے پانی کے چشمے ہیں جو ساسانی دور سے آبپاشی اورپینے کے لئے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔
یہاںجو چشمہ ہے اس سے طاق بسان کے علاقوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آج طاق بسان اوراس کے آس پاس کے علاقوں میں ہریالی ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں.